Maktaba Wahhabi

364 - 611
نبی مکرم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانکاہ حادثۂ وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’یَا أَبَتَاہِ اَجَابَ ربّاً دَعَاہ‘‘ (پیار ے باپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ِحق کو قبول فرما لیا) ’’یَا اَبَتَاہِ اِلَیٰ جَنَّۃِ الْفِرْدَوْسَ مَاَوَاہ‘‘ (والدِ گرامی نے فردوسِ بریں میں نزول فرمالیا) ’’یَا أَبَتَاہِ إِلَی الْجِبْرَیِلِ نَنْعَاہُ‘‘ (ہم اپنے والدِ گرامی کی تعزیت حضرت جبریل علیہ السلام سے کریں گے) آگے فرمایا: یا الٰہی! روحِ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو روحِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا دے۔ یا الٰہی! مجھے دیدارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مسرور کر دے۔ یہ بات انھوں نے کیوں کہی تھی؟ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وفات سے پہلے یہ بشارت دی تھی کہ میرے خاندان والوں میں سے سب سے پہلے تم مجھے ملوگی۔ یا الٰہی! اس مصیبت کے ثواب سے تو مجھے بے نصیب نہ رکھ اور روزِ محشر مجھے شفاعتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم نہ فرما۔ زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دلفگار موقع پر کہا: صد افسوس! وہ نبی جس نے فقر کو غنا پر اور مسکینی کو تو نگری پر ترجیح دی۔ صد افسوس! وہ نبی دین پرور، جو اُمت کی فکر میں کبھی پوری رات آرام سے نہ سویا۔ جس نے ہمیشہ استقامت و استقلال سے نفس کے ساتھ محاربہ و مقابلہ کیا۔ جس نے منہیات کو لمحہ بھر بھی نگاہِ التفات سے نہ دیکھا۔ یعنی منع کردہ چیزوں کو لمحہ بھر کے لیے بھی نہیں دیکھا۔ جس نے بِرّ و احسان کے درواز ے اربابِ فقر و احتیاج پر کبھی بند نہ کیے۔ یعنی فقیروں حاجت مندوں کے لیے مدد اور احسان کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتے تھے۔ جس کے ضمیرِ منیر کے دامن پر دشمنوں کی تکلیفوں اور ایذاؤں کا ذرہ بھر بھی غبار نہ بیٹھا۔ دشمنوں کے بارے میں کبھی دل میں شکوہ و شکایت نہ رکھی، ہر وقت اُن کے لیے ہدایت کی دعا کی۔
Flag Counter