Maktaba Wahhabi

371 - 611
جبکہ ماضی قریب کے دو عظیم سیرت نگاروں میں سے علامہ قاضی سلیمان منصورپوری نے اپنی کتاب ’’رحمت للعالمین‘‘ میں اور علامہ شبلی نے ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ میں ۹/ ربیع الاوّل بمطابق ۲۰/اپریل ۵۷۱ء؁ کو ازروئے تحقیقِ جدید صحیح ترین تاریخِ ولادت قرار دیا ہے۔[1] اسی تاریخ کو محمد طلعت عرب نے تاریخ دول العرب میں صحیح قرار دیا ہے۔[2] عام الفیل ماہِ ربیع الاوّل میں یوم الاثنین کی صحت کے پیشِ نظر اور فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے یومِ وفات پر سورج گرہن لگنے کے حساب کو مدِ نظر رکھا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی صحیح تاریخ ۹/ ربیع الاوّل ہی آتی ہے، جبکہ شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا وقت ۲۰/ اپریل ۵۷۱ء بروز پیر کی صبح بنتا ہے۔[3] 1. صحیح بخاری میں ہے کہ ابراہیم رضی اللہ عنہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صغیر السن صاحبزادے) کے انتقال کے وقت آفتاب میں گرہن لگا تھا اور یہ ۱۰/ ہجری تھا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا تریسٹھواں (۶۳) سال تھا۔ 2. ریاضی کے قاعدے سے حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۰/ ہجری کا گرہن ۷/ جنوری ۶۳۲ء کو آٹھ بج کر تیس منٹ پر لگا تھا۔ ٭ اس حساب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر قمری تریسٹھ برس پیچھے ہٹیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدایش کا سال ۵۷۱ء ہے، جس میں ازروے قواعدِ ہیئت ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ جو ۱۲/اپریل ۵۷۱ء کے مطابق تھی۔ 3. تاریخِ ولادت میں اختلاف ہے، لیکن اس قدر متفق علیہ ہے کہ وہ ربیع الاوّل کا مہینا اور دو شنبہ یعنی پیر کا دن تھا اورتاریخ آٹھ سے لے کر بارہ تک میں منحصر ہے۔ 4. ربیع الاوّل مذکور کی ان تاریخوںمیں دو شنبہ کا دن صرف نویںتاریخ کو پڑتا ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر تاریخِ ولادت قطعاً ۲۰/اپریل ۵۷۱ء تھی اور ربیع الاوّل کی نو تاریخ۔ بارہ ربیع الاوّل کی روایت مشہور تو ہے مگر وہ حساب سے صحیح ثابت نہیں ہوتی۔[4]
Flag Counter