Maktaba Wahhabi

408 - 611
میں ارشاد فرماتے ہیں: { فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا} ’’نماز کو درستی سے ادا کرو، کیونکہ نماز مسلمانوں پر ہے بندھے وقتوں پر۔‘‘ سورۃ المنافقون (آیت: ۹) میں ارشادِ الٰہی ہے: { ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ} ’’مسلمانو! ایسا نہ ہو تمھارے مال اور اولاد تمھیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل بنا دیں اورجو لوگ ایسا کریں گے (اللہ کو بھول جائیں گے) وہ نقصان اٹھائیں گے۔‘‘ یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر اتنی عالب نہ آجائے کہ تم اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہو جاؤ اور اللہ کی قائم حدوں کی پروا نہ کرو اور جو ایسا کریں گے بڑے ہی خسارا اٹھانے والے ہیں۔ احکام و فرائض کی پابندی اور حلال و حرام کے درمیان تمییز کرنا اہل ایمان کا کردار ہے۔ قرآنِ کریم سے قلبِ سلیم کے ساتھ ہدایت حاصل کرنے والے خوش نصیب لوگوں کی اللہ تعالیٰ نے جو نشانیاں بتائی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ سورۃ البقرہ (آیت: ۳) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ} ’’فلاح پانے والے وہ ہیں: جو لوگ غیب پرایمان لاتے ہیں اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا فرمایا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ غیب سے مراد وہ چیزیں ہیں، جن کا ادراک عقل وحواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذاتِ باری تعالیٰ، وحی الٰہی، جنت، دوزخ، ملائکہ، عذابِ قبر اور حشرِ اجساد وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی ماوراے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزوِ ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔ {وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَوٰۃَ} سے مراد پابندی سے اور سنتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نماز کا اہتمام کرناہے۔ {مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ} سے مراد صدقاتِ واجبہ اور نافلہ دونوں ہیں۔ اہلِ ایمان حسبِ استطاعت
Flag Counter