Maktaba Wahhabi

102 - 566
ہیں۔ حقیقت میں ان ہی لوگوں پر تہمت ہے۔اس کے باوجود وہ دین کا انکار نہیں کرتے مگر اپنے حصہ کا انکار کرتے ہیں [مال کا رونا روتے ہیں]۔اسی لیے فرمایا اگر انھیں زکوٰۃ کے مال میں سے دیا جائے تو: ﴿ رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ ﴾ ’’پھر اگر انھیں ان میں سے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں ان میں سے نہ دیا جائے تو اسی وقت وہ ناراض ہو جاتے ہیں۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (التوبۃ: ۷۹) ’’وہ لوگ جو صدقات میں خوش دلی سے حصہ لینے والے مومنوں پر طعن کرتے ہیں اور ان پر بھی جو اپنی محنت کے سوا کچھ نہیں پاتے، سو وہ ان سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ نے ان سے مذاق کیا ہے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘ سیّدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا حا لانکہ ہم بوجھ اٹھا کر مزدوری کیا کرتے تھے اور ابوعقیل نے نصف صاع صدقہ دیا اور کوئی دوسرا آدمی ان سے زیادہ لایا تو منافقین نے کہا بے شک اللہ اس صدقہ سے بے پرواہ ہے دوسرے نے تو صرف دکھاوے ہی کے لیے ایسا کیا ہے تویہ آیت نازل ہوئی: ﴿ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ ﴾’’جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسر نہیں۔‘‘[1]
Flag Counter