Maktaba Wahhabi

307 - 566
ہے، اور اس کی خرابی اور خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ کر ہے۔ بے شک علم ، عمل اور زہد ان سے تو انسان وہ چیزیں طلب کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ، جیسے بلند درجات ، ابدی و سرمدی نعمتیں، اللہ تعالیٰ کی قربت اور اس کے ہاں مقام و مرتبہ۔ ‘‘ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ بے شک علم کو فضیلت اس وجہ سے دی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ بھی باقی تمام چیزوں کی طرح ہوتا۔ ‘‘ جب ان کے ذریعے سے دنیا کی فانی چیزوں کی طلب کی جائے تو اس کی بھی دو قسمیں ہیں: پہلي چیز: کہ اس سے کوئی مال وغیرہ طلب کیا جائے۔ تو یہ بھی مال پر حرص کی ایک قسم ہے کہ مال حرام کردہ اسباب کے ذریعہ سے تلاش کیا جائے۔ دوسري چیز: جو انسان علم و عمل اور زہد سے مقام و مرتبہ ، لوگوں کی سربراہی اور ان پر اپنی بڑائی ثابت کرنا چاہتا ہو۔ تاکہ لوگ اس کی بات مان کر چلیں ، اور اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں، اور اس کی طرف متوجہ ہوں ، اوروہ لوگوں کے سامنے علماء سے بڑھ کر زیادہ اپنے علم کا اظہار کرے، تاکہ اس کا مقام ان باقی علماء سے بلند ہو۔ ایسے ہی انسان سے جہنم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ [ علم کا حصول عمل اور زہدسے ہے] اس کا مقصود لوگوں کے سامنے تکبر کرنا ہے۔ اصل میں یہ انسان خود اپنی ذات میں ہی [علم سے فائدہ اٹھانے سے ] محروم ہے، اور پھر جب اس میں ریاکاری اور آخرت کے دکھلاوے کو استعمال کرتا ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ برا اور قبیح ہوجاتا ہے کہ انسان [اس مقام و مرتبہ کے حاصل کرنے کے لیے ] دنیاوی آلات مال و دولت کا استعمال کرے۔ سیّدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِیُجَارِيَ بِہِ الْعُلَمَائَ أَوْ لِیُمَارِیَ بِہِ السُّفَہَائَ أَوْ یَصْرِفَ بِہِ وُجُوْہَ النَّاسِ إِلَیْہِ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ النَّارَ۔))[1]
Flag Counter