Maktaba Wahhabi

348 - 566
میں سے ایک آدمی ہوں۔ پھر آپ چلے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ چل دیے۔ یہاں تک کہ آپ مسجد میں داخل ہوئے اور منبر پر چڑھے۔ لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ اے لوگو!مجھ سے مشورہ کیے بغیر مجھے اس معاملہ کے ذریعہ آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے، اورنہ ہی یہ امارت میں نے طلب کی تھی، اورنہ ہی مسلمانوں سے مشورہ کیا گیا۔ تمہاری گردنوں میں میری بیعت کا جو طوق ہے ، اسے میں اتارتا ہوں۔ تم اپنے اس معاملہ کے لیے جسے چاہتے ہواسے اختیار کرلو۔‘‘ اس پر تمام مسلمانوں نے بیک آواز ہوکر کہا: ’’ ہم آپ کو اپنے اس معاملہ کے لیے اختیار کرتے ہیں، اور ہم تمام آپ پر راضی ہیں پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا۔ ‘‘[1] عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی زوجہ محترمہ فاطمہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ آپ عمر بن عبد العزیز کے پاس گئیں۔ آپ اپنے مصلیٰ پر تھے ، اور آپ کا ہاتھ آپ کے رخسار پر تھا، اور آنسو بہہ رہے تھے۔ انھوں نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین ! کیا کوئی معاملہ پیش آگیا ہے؟ توآپ نے فرمایا: ’’ اے فاطمہ ! مجھے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ تو میں نے اس بھوکے فقیر کے بارے میں سوچا اور پریشان حال بیمار کے بارے میں سوچا اور ننگے بے بس کے متعلق اور مغلوب مظلوم کے متعلق سوچا اور تنگ دست پردیسی کے بارے میں سوچا، اوربڑی عمر کے لوگوں کے متعلق اور بچوں کے متعلق سوچا جو زمین کے کسی کونے میں آباد ہیں۔ تو میں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کے بارے میں مجھ سے سوال کرے گا اور یہ کہ ان لوگوں کی طرف سے جھگڑا کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ تو مجھے ڈر محسوس ہونے لگا کہ اس جھگڑے کے وقت میری حجت ثابت نہ ہوسکی تو پھر کیا ہوگا؟ بس یہ سوچ کر مجھے اپنے آپ پر ترس آیا ؛ اور میں رونے لگ گیا۔‘‘[2]
Flag Counter