Maktaba Wahhabi

420 - 566
کچھ لوگ تو ایسے تھے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر چلتے رہے ، اور انہوں اس دنیا کو اپنے سے دور ہی رکھا۔ان صحابہ کی تعداد بہت کم ہے، اور ان میں سے بھی بہت کم لوگ تھے جن کے سامنے دنیا نے خود کو پیش کیا۔ انہوں نے پوچھا: تمہارے اندر کیا ہے؟ دنیا نے کہا: میرے اندر حلال ہے ؛ شبہ والی چیزیں ہیں ، مکروہ ہے اور حرام ہے۔‘‘ تو وہ کہنے لگے: ’’ اپنی حلال چیزیں لے آؤ۔ اس کے علاوہ ہمیں تمہاری کسی چیز کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ پس انہوں نے صرف حلال کوہی قبول کیا۔ پھر ان کے بعد کے لوگوں پر اس دنیا نے خود کو پیش کیا۔ انہوں نے حلال طلب کیا مگر نہ پایا۔ تو انہوں نے مکروہ اور شبہ والی چیزوں کی طلب کی۔تو دنیا ان لوگوں سے کہنے لگی: ’’ یہ چیزیں تم سے پہلے لوگوں نے لے لی ہیں۔‘‘تو کہنے لگے: اچھا پھر اپنی حرام چیزیں لے آؤ۔اورانہوں نے ان حرام چیزوں کو قبول کرلیا۔ پھر ان کے بعد کے لوگوں نے جب یہ حرام چیزیں طلب کیں، تو دنیا کہنے لگی: یہ ظالم لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جنہوں نے ان چیزوں کو ترجیح دی ہے۔ یہ لوگ ان ظالموں سے اس دنیا کے حاصل کرنے کے لیے حیلے اختیار کرنے لگے۔ اپنی رغبت اور خوف کے ساتھ۔اس لیے کہ کوئی فاجر انسان کسی حرام چیز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا مگر اس سے پہلے کوئی اور اس سے بڑا اور طاقت ور فاجر اس میں سبقت لے گیا ہوتا ہے۔ یہ تمام کچھ اور سارے لوگ اس دنیا میں مہمان ہیں ؛ اور جوکچھ ان کے ہاتھوں میں ہے وہ ادھار ہے۔ جیسا کہ سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ تم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو صبح کرتا ہو، مگر اس کی مثال ایک مہمان کی سی ہوتی ہے، اور جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ سب ادھار ہے۔ مہمان نے کوچ کر جانا ہے، اور ادھار واپس کردیا جائے گا۔‘‘ [1]
Flag Counter