Maktaba Wahhabi

476 - 566
پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس چل پڑے ہیں ، تومجھے فکر لاحق ہوئی، اور میں جھوٹ سوچنے لگ گیا، اور میں یہ کہتا کہ کل کو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے کیسے بچ سکوں گا۔ اس کے لیے میں نے اپنے اہل خانہ میں سے ہر عقلمند انسان سے مشورہ لیا۔ جب مجھے یہ بتلایا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لانے والے ہیں تو میرے دل سے تمام باطل خیالات ختم ہوگئے، اور میں سمجھ گیا کہ میں کسی طرح بھی جھوٹ بول کر آپ سے بچ نہیں سکوں گا۔ میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ جب میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے تبسم فرمایا ، آپ کا یہ تبسم غصہ والوں کا ساتھا۔ پھر آپ نے فرمایا: (آگے آؤ )؛ میں چلتا ہوا آیا اور آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا ؛ آپ نے فرمایا: تم کس چیز کی وجہ سے پیچھے رہے؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم ! اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور اہل دنیا کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے سامنے میں عذر پیش کرکے اس کے غضب سے چھٹکارا حاصل کرلیتا ، اللہ تعالیٰ نے مجھے قوت جدل دی ہے … الخ الحدیث۔‘‘[1] وجہ استدلال: (مجھے قوت جدل دی ہے) کے جملے سے مراد یہ ہے کہ مجھے فصاحت اور قوت ِ کلام سے نوازا گیا ہے۔میں اس طرح سے کسی بھی الزام سے نکل سکتا ہوں ، اور اپنے آپ کو تمام الزامات سے ایسے بری کر سکتا ہوں جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے۔ سیّدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا زوجۂ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر کسی جھگڑے کی آواز سنی آپ باہر تشریف لائے اور فرمایا:
Flag Counter