Maktaba Wahhabi

511 - 566
﴿ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ﴾’’وہ کہنے لگا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔‘‘ یعنی یہ شخص اس کے بارے میں قتل کا فیصلہ ہوچکا ہے ، اسے معاف کرتا ہوں، اور یہ بری انسان ہے اسے قتل کرتا ہوں۔ [نمرودکا ] یہ مناظرہ باطل ہے۔ اس لیے کہ اس زندگی اورموت سے وہ مقصود نہیں ہے جو کہ توحیدربوبیت میں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو عدم سے زندگی بخشتاہے، اور اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو عدم سے زندگی بخشو؟ [ورنہ کتنے لوگ روزانہ قتل ناحق کا شکار ہوجاتے ہیں تو کیا ان سب کے قاتل رب بن جائیں گے ]؟ جب نمرود باطل مناظرہ پر اتر آیا توسیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے ایک ایسا رخ اختیار کیا جس پر مناظرہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا ، وہ یہ کہ سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ﴿ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ ﴾’’ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے اور تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔‘‘ مگر اس کا جواب اس نے کہاں دینا تھا، اللہ نے فرمایا: ﴿ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ﴾ ’’اب تو وہ کافرہکا بکا رہ گیا۔‘‘یعنی خاموش ہوگیا ، اس سے جواب نہ بن پڑا۔ ٭ایسے اس مناظرے کا قصہ بھی ہے جو کہ دوباغوں کے مالک اور ایک نیک اور صالح انسان کے درمیان ہوا۔ اس نے کیسے جواب دیا؟ اور کیسے باغ والے مغرور کی رہنمائی کی کہ اسے ان نعمتوں پر گھمنڈ کرنے کے بجائے کیا کہنا چاہیے تھا؟ اور پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ امید کی وابستگی بھی ذکر کی۔ [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں]: ﴿ فَعَسَى رَبِّي أَنْ يُؤْتِيَنِ خَيْرًا مِنْ جَنَّتِكَ ﴾ (الکہف:۴۰) ’’بہت ممکن ہے کہ میرا رب مجھے تیرے اس باغ سے بھی بہتر دے۔‘‘ یہ بھی اسے بتایا کہ اس کی ناشکری کی وجہ سے یہ ممکن ہے کہ اس کا پانی خشک ہوجائے ، اور پھل اور میوے ختم ہوجائیں۔
Flag Counter