Maktaba Wahhabi

518 - 566
((أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم خَرَجَ یُخْبِرُ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَتَـلَاحَی رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَقَالَ إِنِّی خَرَجْتُ لِأُخْبِرَکُمْ بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَإِنَّہُ تَلَاحَی فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَرُفِعَتْ وَعَسَی أَنْ یَکُونَ خَیْرًا لَکُمُ الْتَمِسُوہَا فِی السَّبْعِ وَالتِّسْعِ وَالْخَمْسِ۔))[1] ’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ لوگوں کو شب قدر بتانے کے لیے نکلے۔ مگر(اتفاق سے اس وقت) دو مسلمان باہم لڑ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:(اس وقت)میں اس لیے نکلا تھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں۔ مگر ( چونکہ) فلاں فلاں باہم لڑے، اس لیے(اس کی خبر دنیا سے) اٹھالی گئی، اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو (اب تم شب قدر کو)رمضان کی ستائیسویں اور انتیسویں اور پچیسویں(تاریخوں) میں تلاش کرو۔‘‘ بس ان دو آمیوں میں جھگڑے، مناظرہ اور اختلاف کے سبب سے شب قدر کے متعین ہونے کا علم اٹھالیا گیااور اس کے خاص اور مقرر دن میں ہونے کی معرفت ممکن نہ ہوسکی۔ حدیث میں وراد لفظ: (تَـلَاحٰی) کا معنی ہے جھگڑا کرنا ، بحث و مباحثہ اور تکرار کرنا، ان دونوں کے جھگڑے میں شیطان بھی داخل ہوگیا تھا، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب قدر کی متعین تاریخ کا علم بھلادیا گیا۔ یہ حدیث تکرار اور بلاوجہ بحث و مباجثہ کے مذموم اور برا ہونے کی دلیل ہے، اوریہ کے بلاوجہ جھگڑے سزاملنے ، اور خیر سے محروم رہنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا جھگڑا اور تکراراور آوازبلندکرنے کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں اور آپ کی موجود گی میں مسجد النبوی الشریف میں پیش آیا تھا۔ یونس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ میری طرف میمون بن مہران رحمہ اللہ نے خط لکھا: [جس کا یہ مضمون تھا]:
Flag Counter