Maktaba Wahhabi

548 - 566
أَخَاہُ تَحْتَ یَدِہِ فَلْیُطْعِمْہُ مِمَّا یَأْکُلُ وَلْیُلْبِسْہُ مِمَّا یَلْبَسُ وَلَا یُکَلِّفُہُ مِنَ الْعَمَلِ مَا یَغْلِبُہُ فَإِنْ کَلَّفَہُ مَا یَغْلِبُہُ فَلْیُعِنْہُ عَلَیْہِ۔))[1] ’’ہاں! وہ تمہارے بھائی ہیں اور اللہ نے ان کو تمہارے ہاتھوں میں دے دیا ہے اور جس کے ہاتھوں میں اس کے بھائی کو دے دے تو جو خود کھاتا ہے، اسے کھلائے اور جو خود پہنتا ہے، اس کو پہنائے اور اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دے، جو اس سے نہ ہوسکے اور اگر تکلیف دے تو پھر اس کے کرنے میں خود بھی مدد کرے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ وہ تمہارے بھائی ہیں‘‘: اس سے مراد غلام اور خدمت گار ہیں کہ ان کے لیے غلامی کا ہونا کوئی ایسا عیب نہیں کہ انھیں حقیر سمجھا جائے۔ اس حدیث میں کسی بھی مسلمان کو گالی دینے یا اس پر لعنت کرنے یا اسے حقیرسمجھنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ شریعت نے تمام مسلمان لوگوں کے درمیان اپنے اکثر احکام میں مساوات قائم کی ہے۔ بے شک ان لوگوں کے درمیان حقیقی فضیلت اور برتری کا معیار تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی شریعت کی پاسداری] ہے۔ تو جب کوئی انسان اہل تقوی میں سے نہیں ہوگا تو کسی بڑے نسب والے انسان کو اس کا نسب کچھ بھی کام نہیں آئے گا۔ جب کہ[اہل دنیا کی نظر میں] کسی گرے ہوئے اورحقیر انسان کے لیے بھی اس کا نسب اس وقت نفع بخش ثابت ہوگا جب وہ خود متقیوں میں سے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ﴾ (الحجرات:۱۳) ’’ اللہ کے نزدیک تم سب میں سے با عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ:((یَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّکَ امْرُؤ فِیْکَ جَاہِلِیَّۃٌ ))۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تمہارے اندر جاہلیت کی خصلتوں میں سے ایک خصلت باقی ہے۔ حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کاقصہ ہے کہ ابھی تک سیّدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کو
Flag Counter