Maktaba Wahhabi

147 - 548
الْکُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَہٗ مِنْہٗ کَمَا یَکْرَہُ أنْ یُّلْقیٰ فِيْ النَّارِ )) [1] [جس میں یہ تین باتیں ہیں اس نے ایمان کا مزہ پایا ہے: 1۔اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ان کے ما سوا سے سب سے زیادہ دوست ہوں۔ 2۔آدمی جس کو دوست رکھے اس کو خالص اللہ کے لیے ہی دوست رکھے نہ کسی اور وجہ اور غرض سے۔ 3۔کفر سے رہائی پانے کے بعد پھر کفر میں جانے کو ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے] ہم نے اس حدیث کی شرح میں مستقل ایک رسالہ لکھا ہے، جس کا نام ’’تقویۃ الإیقان‘‘[2] ہے۔ اس لیے اس جگہ اس پر زیادہ کلام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سارے جہاں سے زیادہ ہونی چاہیے۔ جس میں اس محبت کی زیادتی نہیں ہے، گو اسے کچھ محبت ہو تو وہ لذتِ ایمان سے بے نصیب ہے۔ اس محبت کی شناخت یوں ہوتی ہے کہ ایک طرف مثلاً اللہ یا رسول یا دونوں کا حکم ہو اور دوسری طرف نفس یا اہل یا مال یا دنیا یا اولاد یا والدین یا اقارب یا وطن یا احباب کی محبت مقابلہ کرے اور یہ شخص ان سب کی محبت پر خاک ڈال کر اس حکم کو نہایت بشاشت کے ساتھ مان لے اور کر گزرے تو جانو کہ وہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ چاہتا ہے، لیکن اگر ان دونوں کے مقابلے میں دوسروں کی طرف رخ کیا تو سمجھو کہ احبّیت سے اس کو بالکل اجنبیت ہے، خصوصاً جب اس کے دل میں اس ترجیح بلا مرجح کا کچھ دھڑکا بھی نہ ہو کہ اس وقت تو اصل محبت کے وجود میں بھی، اگرچہ قدر قلیل ہو، شک پڑتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمان کی محبت کسی شخص کے ساتھ اللہ کے لیے ہوتی ہے نہ کہ قرابت یا دوستی یا کسی نفسانی غرض کے لیے۔ اگر یہ محبت اللہ کے لیے نہیں ہے، بلکہ کسی اور مطلب سے ہے تو اس محبت کا کچھ نفع نہیں ہے، بلکہ غیر اللہ کی یہ محبت آخرت میں وبال جان ہو جائے گی اور اگر اللہ کے لیے ہے تو پھر پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔ عرش کے نیچے سایہ ملے گا اور نور کے منبر بیٹھنے کے لیے ہوں گے۔[3]
Flag Counter