Maktaba Wahhabi

160 - 548
یعنی کیا تم کو اسی بات کا حکم ہوا ہے؟ یا کیا میں اسی لیے تمھارے پاس بھیجا گیا ہوں؟ تم سے اگلے لوگ یوں ہی تو برباد ہوئے کہ انھوں نے تقدیر میں نزاع کیا۔ میں تم کو تاکید کرتا ہوں کہ تم اس مسئلے میں بحث نہ کرو۔ اللہ نے جو باتیں بندوں کے لائق تھیں وہ بتا دیں اور جس میں دنیا و دین کا کچھ فائدہ نہ تھا، اس کو بیان نہ کیا یا جو ان کی سمجھ سے باہر بات تھی وہ نہ کہی، تا کہ لوگ لا یعنی امور میں مشغول نہ ہوں،جیسے یہ بیان نہ کیا کہ چاند سورج کس چیز سے بنے ہیں؟ عرش کس چیز سے ہے؟ آگ وپانی کس شے سے اور ان کی حقیقت کیا ہے؟ کیونکہ ان باتوں کے دریافت ہونے اور نہ ہونے سے کچھ نفع و نقصان نہیں ہے، یا شرع میں وحدتِ وجود، وحدتِ شہود اور اللہ کی ذات وآیات، متشابہات کی تاویل اور ہر عبادت کی خاص وضع کا بھید نہ بتایا، کیونکہ یہ باتیں اکثر آدمیوں کی عقل سے زیادہ ہیں۔ کوئی مطلق انکار کرے گا اور کوئی زیادتی کمی کرے گا تو دونوں گمراہ ہوں گے، چنانچہ اگلی امتوں کے لوگ ایسے گُن تاروں میں پڑ کر گمراہ ہو گئے، ویسا ہی جبر وقدر کا مسئلہ ہے کہ اس میں بحث وخوض کرنا درست نہیں، کیونکہ یہ آدمی کی عقل سے باہر ہے۔ کئی جاہل آدمی اس سے گمراہ ہو جائیں گے، اور ایسا ہی ہوا بھی ہے۔ 9۔حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا میں فرمایا ہے: (( مَنْ تَکَلَّمَ فِيْ شَیْیٍٔ مِنَ الْقَدْرِ سُئِلَ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَّمْ یَتَکَلَّمْ فِیْہِ لَمْ یُسْئَلْ عَنْہُ )) [1] (رواہ ابن ماجہ) یعنی جس نے قدر کے بارے میں کچھ گفتگو کی، اس سے قیامت کے دن یہ محاسبہ ہو گا کہ تو نے اس مسئلے میں کیوں گفتگو کی اور جو اس کے متعلق بات نہیں کرے گا، اس کی کچھ باز پُرس نہ ہو گی۔ تقدیر پوری ہو کر رہتی ہے: معلوم ہوا کہ ہمیں اس بحث سے منع کیا گیا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ ہمارا خوض ایسے کام میں ہے جو مدت دراز سے طے ہو چکا ہے۔ 10۔حدیثِ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ میں فرمایا ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا اور کہا کہ لکھ۔ اس نے کہا: کیا لکھوں؟ فرمایا: قدر۔ اس نے جو کچھ ہوا اور ابد تک ہو گا، وہ سب لکھا۔
Flag Counter