Maktaba Wahhabi

513 - 548
عمل اس طرزِ تعلیق سے نہیں کرتے تھے، بلکہ آیات واحادیث کو پڑھ کر دوسرے پر پھونک دیتے تھے۔ ان کے ہاں یہ دستور نہ تھا کہ تعویذ بنا کر گلے میں لٹکائیں یا بازو پر باندھیں یا ہاتھ پاؤں میں کوئی چھلا پہنیں۔ بالفرض یہ بات فی الجملہ جائز بھی ہو تو شرک کے خطرات ومشتبہات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم کسی امر مباح کے ترک پر مشرک ہو سکتے ہیں نہ مبتدع، ہاں جس کام کی اجازت ہم کو شارع کی طرف سے صراحتاً نہیں ہے، بلکہ شارع نے ہم کو ان امور سے منع کیا ہے، ان کو کرنے میں ہمیں یہ خوف ہے کہ مبادا کہیں شرک یا کفر ہو کہ ہم تو اس دھوکے میں رہیں کہ یہ بات جائز ہے اور دوسری طرف ہمارا ایمان شرک خفی یا کفر خفی کے سبب جاتا رہے اور زمانۂ اسلام کا سارا کیا کرایا عمل اکارت ہو جائے، کیونکہ شرک اتنا باریک ہے کہ اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی اور پوشیدہ چیز ہے، لیکن اکثر لوگ اس نکتے کو نہیں سمجھتے اور اقوال ضعیفہ پر اعتماد کرکے ایسی آفتوں میں پھنس کر اپنا ایمان تباہ، اسلام برباد اور اخلاص فنا کر دیتے ہیں۔ اللھم وفقنا للخیر۔ شرکیہ دم اور منتر: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا بیان ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے میرے گلے میں ایک دھاگا دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا: اس میں میرے لیے دم کیا گیا ہے۔ انھوں نے اس کو توڑ ڈالا اور کہا: آلِ عبداللہ شرک سے کوسوں دور ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرما رہے تھے: ’’جھاڑ پھونک، تعویذ اور جادو شرک ہیں۔‘‘[1] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی بیوی نے کہا: میری آنکھ میں تکلیف تھی تو میں فلاں یہودی کے پاس گئی، اس نے منتر پڑھا اور آنکھ کو سکون ہوگیا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ کام شیطان کا ہے، وہ تیری آنکھ میں آہستہ سے ٹھیس کرتا تھا، جب منتر پڑھا گیا تو رک گیا۔ تم کو وہی کافی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے، تم بھی وہی کہو: (( أَذْھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لاَ شِفَائَ إِلاَّ شِفَائُکَ شِفَائًا لاَّ یُغَادِرُ سَقَمًا )) [2]
Flag Counter