Maktaba Wahhabi

537 - 548
مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْر﴾ [سبأ: ۲۳] [اور اللہ کے یہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی مگر جس کو اجازت دے، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو کہتے ہیں کیا فرمایا تمھارے رب نے ؟ کہتے ہیں کہ حق، اور وہی ہے بلند اوربڑا] یعنی جو کوئی کسی سے مراد مانگتا ہے اور مشکل کے وقت اس کو پکارتا ہے، اس کے جواب میں وہ اس کی حاجت روائی کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ یا تو وہ خود مالک ہو یا مالک کا ساجھی یا مالک پر اس کا دباؤ ہو، جیسے بڑے بڑے امیروں کی بات کو بادشاہ ان کے دباؤ سے مان لیتا ہے، کیونکہ وہ اس کے بازو ہیں اور اس کی سلطنت کے رکن۔ ان کے ناخوش ہونے سے سلطنت بگڑتی ہے، یا وہ مالک سے سفارش کرے اور اسے اس کی سفارش قبول کرنی ہی پڑے، خواہ وہ دل سے خوش ہو یا نا خوش، جیسے بادشاہ اپنے شہزادوں یا بیگمات کی محبت سے ان کی سفارش رد نہیں کر سکتا ہے، چار و ناچار ان کی سفارش قبول کر لیتا ہے۔ لیکن یہاں حال یہ ہے کہ اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں، وہ نہ تو آسمان و زمین میں ایک ذرہ برابر چیز کے مالک ہیں اور نہ ان کا کچھ حصہ ہے، نہ وہ اللہ کی سلطنت کے رکن ہیں اور نہ اس کے بازو کہ ان سے دب کر اللہ ان کی بات مان لے، یہاں تک کہ وہ اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت بھی نہیں کر سکتے کہ اصرار کرکے اس سے کچھ دلوا دیں، بلکہ اس کے دربار میں ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ کچھ حکم فرماتا ہے تو یہ سب رعب میں آکر حواس باختہ ہو جاتے ہیں اور ادب و دہشت سے دوسری بار اس بات کی تحقیق اس سے نہیں کر سکتے، بلکہ ایک دوسرے سے پوچھتا ہے اور جب آپس میں اس بات کی تحقیق کر لیتے ہیں تو ’’آمنا و صدقنا‘‘ کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ پھر بات الٹنے کا کیا ذکر ہے اور کسی کی وکالت و حمایت کرنے کی کیا طاقت؟ دنیوی شفاعت کی قسمیں: اس جگہ ایک بات بڑے کام کی ہے، جسے سن لینا چاہیے کہ اکثر لوگ انبیا و اولیا کی شفاعت پر بہت اترا رہے ہیں اور اس کے غلط معنی سمجھ کر اللہ کو بھول گئے ہیں، اس لیے پہلے شفاعت کی حقیقت سمجھ لینی چاہیے، شفاعت کہتے ہیں سفارش کو۔ دنیا میں شفاعت کئی طرح کی ہوتی ہے۔
Flag Counter