Maktaba Wahhabi

528 - 548
وہ دوسرے میں کیا تصرف کرے گا؟ اللہ سبحانہ تو یہ کہتا ہے کہ اَرواح اس کے پاس ہیں، جبکہ یہ ملحدین کہتے ہیں کہ اَرواح بااختیار ومتصرف ہیں۔ ﴿قُلْ ئَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ﴾ [البقرۃ: ۱۴۰] [کہہ دو کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ زیادہ جانتا ہے؟] ان کا یہ کہنا کہ یہ سارے تصرفات اولیا کی کرامات ہیں، محض مغالطہ دہی ہے، اس لیے کہ کرامت اللہ کی عطا کردہ چیز ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے، اس سے نوازتا ہے۔ یہ شے ان کے قصد وارادے اور اختیار سے ظاہر نہیں ہوتی، جیسا کہ مریم [، اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے۔[1] رہا اموات سے استغاثے کا اعتقاد تو یہ پہلے دونوں قولوں سے زیادہ قبیح و شنیع اور قرآنی آیات سے متصادم ہے۔ امور حسیہ میں سے اسباب ظاہر ہ عادیہ سے استغاثہ کرنا جائز ہے، جیسے قتال وجہاد یا کسی دشمن یا درندے کا سامنا ہونے کے وقت یہ پکارنا کہ اے زید! اے مسلمانو! رہے امور معنویہ تو ان میں کسی کی قوت وتاثیر سے استغاثہ بالکل جائز نہیں ہے، جیسے مرض، خوفِ غرق، تنگ دستی وفقیری اور طلبِ رزق وغیرہ کہ یہ سب باتیں اللہ کے خصائص میں سے ہیں۔[2] حاصل یہ ہے کہ اہلِ علم ہمیشہ ان امور شرکیہ کا انکار کرتے رہے ہیں۔ اگر سب کا کلام جمع کیا جائے تو ایک دفتر بے پایاں ہو جائے۔ نفع و نقصان کا مالک: اللہ تعالیٰ اپنے رسول مقبول کو حکم دے رہا ہے: ﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ﴾ [الأعراف: ۱۸۸] [اے پیغمبر ! کہہ دو کہ میں اپنی ذات کے نفع ونقصان کابھی مالک نہیں ہوں مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کی بات جانتا تو اپنے لیے بہت سی بھلائی حاصل کر لیتا اور مجھے تکلیف نہ پہنچتی]
Flag Counter