Maktaba Wahhabi

360 - 548
دعوتِ دین کے تین مدارج: یہ آیت اخلاصِ توحید کی دلیل ہے، کیونکہ بہت سے داعیانِ حق ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کی طرف دعوت دینے کے بجائے اپنے نفس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ﴾ [النحل: ۱۲۵] [اے نبی! لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعے سے اپنے پروردگار کی راہ کی طرف بلاؤ اور ان سے بحث کرو تو اس طورسے جو بہترین ہو] اس آیت میں اللہ نے دعوت کے تین مرتبے بیان کیے ہیں، جو مدعو کے حسب حال ہوتے ہیں، کیونکہ جو شخص حق کا طالب اور دل دادہ ہوتاہے اور اس کو ہر چیز پر فوقیت دیتا ہے، اس کو حکمت سے بلانا چاہیے۔ وہ نصیحت وبحث کا محتاج نہیں ہوتا ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ جو شخص حق کے خلاف امور میں مشغول رہتا ہے، لیکن جب حق کو پہچان لے گا تو اس کا تابع ہو جائے گا، پھر اس کو نصیحت کے ساتھ ترغیب وترہیب کی بھی ضرورت ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر کوئی شخص حق کا معارض ومعاند ہے تو اس سے عمدہ اور اچھے ڈھنگ سے مباحثہ ومقابلہ کرنا چاہیے، اگر وہ اپنے معاندانہ طریقے کار سے رجوع کرلے تو بہتر ہے، ورنہ اس سے جہاد کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ قالہ ابن القیم رحمہ اللّٰہ ۔[1] عقیدہ توحید میں صوفیہ کے دو نظریات: مسئلہ توحید میں مذہبِ صوفیہ دو طرح پر ہے۔ ایک ’’وحدۃ الشہود‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ صوفیہ کے سارے سلف اور ائمہ سلوک اسی توحید کے قائل رہے ہیں۔ یہ لوگ آیت ﴿فَاعْتَبِرُوْا یٰٓأُولِی الْأَبْصَارِ﴾ [الحشر: ۲] [اے دل کی آنکھ والو عبرت پکڑو] سے استدلال کرتے ہیں۔ دوسرا مذہب ’’وحدۃ الوجود‘‘ ہے۔ یہ مذہب ان لوگوں کے ذہن کی پیداوار ہے، جو مغلوب الحال اور مدہوش یا عقل وشعور سے محروم اور حیرانی وپریشانی کا شکار ہیں۔ متاخرین مشائخ کی ایک جماعت اس کی قائل ہوگئی ہے اور شرعی مدارج سے کوسوں دور جا پڑی ہے۔ ان لوگوں نے ایسے ایسے عجیب الفاظ وعبارات تراشے ہیں جو کانوں سے سنے نہیں جا سکتے۔ ان خرافات کو شرک و کفر کے
Flag Counter