Maktaba Wahhabi

79 - 548
گی۔ یہی وجہ ہے کہ توحید کو اساسِ طاعات اور افضل حسنات کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی موحد و متبعِ سنت کبیرہ گناہوں کے سبب دوزخ میں چلا بھی گیا تو ان شاء اللہ انجام کار وہ رہائی پائے گا۔ مگر اس کے برخلاف وہ نام کا مسلمان جو شرک میں گرفتار تھا، پیر پرست، گور پرست، امام پرست، شہید پرست، پیغمبر پرست اور دیگر چیزوں کا پرستار تھا، وہ دوزخ سے کبھی نجات نہ پا سکے گا، گو وہ کتنا ہی بڑا عالم یا عابد کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْٓئَتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۸۱] [کیوں نہیں! جس نے بڑی برائی کمائی اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا تو وہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں] اس سے معلوم ہوا کہ مشرک ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہے گا اور مومن صالح جنتِ خلد میں رہے گا اور دونوں کے لیے دائمی زندگی ہے۔ نجاتِ آخرت کا راستہ: جس شخص کی مراد یہ ہو کہ وہ آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اولاً عقیدہ درست کرے، سلف کے اعتقاد پر ثابت قدم رہتے ہوئے اپنی عقل کو دخل نہ دے اور کسی بدعتی کی تاویل پر دھوکا نہ کھائے۔ پھر جب عقیدہ درست ہو گیا تو اب عمل صالح بجا لانے اور بدعات سے بچنے میں سعی کرے۔ اگر نیکیاں گناہوں سے زیادہ ہو جائیں گی تو نجات مل جائے گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو جہنم موجود ہے، گو اس میں ہمیشہ نہ رہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِيْ النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ: یَا ابْنَ آدَمَ! ہَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ؟ ہَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیمٌ قَطُّ؟ فَیَقُولُ: لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ، وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِيْ الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِيْ الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہُ: یَا ابْنَ آدَمَ! ہَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ؟ ہَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ؟
Flag Counter