Maktaba Wahhabi

153 - 548
یعنی جس نے کسی کو اللہ کے لیے دوست رکھا اور اللہ کے لیے دشمن رکھا اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے نہ دیا تو اس نے ایمان پورا کر لیا۔ جو کوئی کسی کو دوست رکھتا ہے تو کسی سبب سے رکھتا ہے، مثلاً باپ سے محبت اس لیے ہوتی ہے کہ اس نے پرورش کی اور استاذ سے اس لیے کہ انھوں نے راہِ نیک بتائی اور حاکم وبادشاہ سے اس لیے کہ ان کی حمایت ورعایت میں یہ شخص زندگی بسر کرتا ہے اور کسی سے اس لیے کہ وہ سخی ہے اور کسی سے اس لیے کہ اس کی صورت اچھی ہے اور کسی سے اس لیے کہ وہ دوست کا دوست یا دوست کے دشمن کا دشمن ہے، اسی طرح دشمنی کے اسباب ہوتے ہیں اور ایسے ہی کسی کو دینا یا نہ دینا کسی سبب سے ہوتا ہے۔ پھر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ نے ان سے محبت رکھنے کا حکم دیا ہے، جیسے پیغمبر، اصحاب، اہلِ بیت، شہدا، دین دار علما، سارے مسلمان، فرشتے، اور بعض وہ ہیں جن سے بغض وعداوت رکھنے کا حکم دیا ہے یا وہ اللہ کی درگاہ سے راندے گئے ہیں، جیسے شیاطین انس و جن، سارے کفار، فساق اور اہلِ بدعت، تو جو شخص ایسا ہو کہ جس سے اللہ نے محبت رکھنے کا حکم دیا ہے، اس سے محبت رکھے اللہ کا مقبول سمجھ کر اور جس سے دشمنی رکھے تو بھی اسی سبب سے کہ یہ اللہ کے خلافِ مرضی کام کرتا ہے یا ضلالت کا سبب ہے، پھر دے تو ایسی ہی جگہ دے کہ جہاں اللہ نے دینے کا حکم دیا ہے اور نہ دے تو اسی سبب سے کہ اللہ نے اس جگہ دینے سے منع فرمایا ہے، تو ایسا شخص کامل الایمان ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے حب وبغض اور سخاوت وبخل کو خدا کی مرضی کے تابع رکھے، یہ نہ کرے کہ اپنی مرضی وغرض اور حمیت ومطلب دنیاوی کو مقدم کرے، کیوں کہ اس میں ایمان برباد ہو جاتا ہے اور اسی جگہ مسلمان کا امتحان ہوتا ہے کہ اگر شارع کی مرضی پر چلا تو کامل الایمان ہے ورنہ ناقص الایمان ہے۔ غربتِ اسلام کا ایک بڑا سبب اس زمانہ آخر میں یہی ہے کہ اس عمدہ قانون کی پیروی ترک ہو گئی ہے اور حب و بغض اور عطا ومنع ہر شخص کی اپنی مرضی پر موقوف ہو کر رہ گیا ہے۔ ٭٭٭
Flag Counter