Maktaba Wahhabi

155 - 548
کے ارادے سے ہوتا ہے، لیکن ارادہ اور چیز ہے اور رضا اور چیز۔ پہلے سے بندے کے نصیب میں ہر کام کا لکھ دینا اور چیز ہے، اس لکھنے اور چاہنے سے اللہ کی کوئی رضامندی ثابت نہیں ہوتی ہے۔ اللہ نے نیکی کا حکم دیا ہے اور بدی سے منع کیا ہے، بکری کھانے کی اجازت دی ہے اور سور کھانے سے نہی فرمائی ہے۔ اب اگر کوئی سور کھائے تو اللہ پر کیا الزام؟ بلکہ کھانے والے کا قصور ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے اس کو بچنے کا بھی اختیار دیا تھا، یہ اور بات ہے کہ کوئی شخص خواب میں ہو اور اس کے منہ میں کوئی حرام چیز ڈال دے تو بلا شبہہ وہ بے قصور اور مجبور ہو گا، اللہ نے بھی مجبور، بے ہوش، سوئے ہوئے اور دیوانے پر حکم جاری نہیں کیا ہے۔ تقدیر کا بھید کوئی نہیں سمجھ سکتا، بلکہ ہمیں اس کو دریافت کرنے کا بھی حکم نہیں دیا ہے اور اگر فرضاً کوئی دریافت بھی کر لے تو اس میں دنیا و دین کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ بہشت میں جانا یا دوزخ سے بچنا اس کے دریافت کرنے پر موقوف نہیں ہے، بلکہ ہمیں تو اس گفتگو ہی سے منع فرمایا ہے، پھر اس میں بحث وخوض کرنا حماقت وضلالت کے سوا اور کیا ہے۔ قضا و قدر کا قرآن و حدیث میں جتنا ذکر آیا ہے، اس پر ایمان لا کر چپ رہے، کچھ چون و چرا نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِِنَّا کُلَّ شَیْئٍ خَلَقْنٰہُ بِقَدَرٍ﴾ [القمر: ۴۹] [یعنی ہم نے ہر چیز اندازے سے بنائی ہے] حکیم جب کام کرتا ہے تو پہلے سے اس کا انجام سوچ لیتا ہے اور اول سے اپنے ذہن میں مالہ وماعلیہ ٹھہرا لیتا ہے۔ سو اللہ سب حکیموں کا حکیم اور سب داناؤں کا دانا ہے۔ اس نے آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار برس پہلے سب خلائق کے مقادیر کو لکھ رکھا ہے۔ جیسا کہ امام مسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔[1] اب اسی تقدیر کے موافق ہر ایک چیز اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ اسی بنیاد پر مسلمان کو یہ چاہیے کہ اگر کسی سے کچھ نقصان وضرر پہنچے تو اس کا گلہ شکوہ نہ کرے۔ یہ جانے کہ اللہ نے پہلے ہی سے یہ بات مقدر کی تھی اور اس میں کچھ حکمت ہے جو میرے خیال میں نہیں آتی۔ اگر کسی سے کچھ فائدہ پہنچے تو اللہ کا شکر اصالتاً اور محسن کا شکر تبعاً بجا لائے کہ اس نے میری ولادت سے پہلے یہ
Flag Counter