Maktaba Wahhabi

179 - 548
الأَقْصیٰ، وَمَسْجِدِيْ ھٰذَا )) [1] (رواہ البخاري و مسلم) [سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف۔ مسجد حرام، مسجد اقصی اور میری اس مسجد کی طرف] یعنی زیارت کے لیے کسی متبرک مکان کو سفر کر کے جانا درست نہیں ہے، مگر ان تین مسجدوں کی زیارت کے لیے جانا درست ہے۔ اگلی امتوں کے لوگ کوہِ طور، مرقع عیسیٰ اور قبرِ یوحنا وغیرہ کی زیارت کرنے کے لیے دور دور سے سفر کر کے جاتے تھے۔ اس حدیث سے وہ منع ہو گیا۔ اب مکن پور، اجمیر، بہرائچ، بغداد، کربلا اور نجف کی طرف فقط قبروں کی زیارت کے لیے سفر کر کے جانا درست نہیں ہے، بلکہ ان قبور ومشاہد کا کیا ذکر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی قبر پر جماؤ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ 2۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً کہتے ہیں: (( لَا تَجْعَلُوْا قَبْرِيْ عِیْدًا، وَصَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِيْ حَیْثُ کُنْتُمْ )) [میری قبر کو عید نہ ٹھہراؤ اور مجھ پر درود بھیجو، کیونکہ تمھارے درود ہر جگہ سے مجھ کو پہنچ جاتے ہیں] اس کو نسائی نے روایت کیا ہے۔[2] یعنی تم اگر میری زیارت کسی شرک یا بدعت کے واسطے نہیں کرتے ہو، بلکہ درود بھیجنے کی غرض سے سفر کر کے دور دور سے آتے ہو تب بھی یہ جماؤ درست نہیں، اس لیے کہ درود یہاں سے بھیجنا اور اندلس سے بھیجنا یکساں ہے۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ یہود ونصاریٰ اپنے بزرگوں کی قبروں پر سال کے بعد میلہ اور جماؤ کرتے ہیں اور ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور ان کی منتیں مانتے ہیں تو امت کو منع کر دیا کہ تم عید کی طرح ہر برس اچھی اچھی پوشاک پہن کر اور خوشی خوشی تاریخ معین میں جمع نہ ہو، بلکہ اگر تم کو اپنے اور میرے لیے ثواب منظور ہے تو مجھ پر درود بھیجو کہ مجھ کو اور تم کو دونوں کو ثواب ملے۔ درود کے لیے قبر سے نزدیک ہونا
Flag Counter