Maktaba Wahhabi

211 - 548
اور ناپاک ہے۔ چوتھے یہ کہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ اب جو شخص یوں جانے کہ دوسرا نکاح کرنے میں بڑی بڑی قباحتیں ہیں تو وہ شخص گویا اپنے آپ کو اللہ سے زیادہ دانا جانتا ہے، پھر معاذ اللہ اس کے ایمان کا کیا ٹھکانا ہے؟ نیز فرمایا: ﴿وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِِمَآئِکُمْ اِِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ﴾ [النور: ۳۲] [جو عورتیں تمھاری برادری میں بیوہ ہو جائیں تو ان کو آپس میں بیاہ دو اور تمھارے جو غلام ولونڈی نیک ہوں کہ بیاہ ہو جانے سے تمھارا کام نہ چھوڑیں ان کو بھی بیاہ دو اگر وہ محتاج وفقیر ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ ان کی مفلسی و محتاجی جاتی رہے گی] اس سے معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں کہ جب بیوہ خود درخواست کرے تب ہی اس کا دوسرا نکاح کیا جائے، بلکہ والی کو چاہیے کہ خود تدبیر کر کے شرع کے موافق اجازت لے، اگر وہ خود نکاح کرنا چاہے تو اس کو نہ روکیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’اللہ ان کو غنی کر دے گا۔‘‘ سے یہ ثابت ہوا کہ نکاح کرنے والے پر خاص رحمتِ الٰہی ہوتی ہے، اس لیے محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوسرے نکاح کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ تین کاموں میں دیر نہ کرنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے اور جب جنازہ موجود ہو اور جب بیوہ عورت کا جوڑ مل جائے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔[1] اگلی سب بیبیاں اور پیغمبرزادیاں اسی طرح کرتی آئی ہیں، چنانچہ رقیہ رضی اللہ عنہا دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ثانی عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا، پھر ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا۔ یہ دونوں پہلے عتبہ وعتیبہ پسران ابولہب کے نکاح میں تھیں۔ ام کلثوم کا نکاح پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ہوا، پھر ہر سہ پسران جعفر سے ہوا۔[2] امامہ دختر زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں، پھر
Flag Counter