Maktaba Wahhabi

261 - 548
بہشت و دوزخ کا وجود برحق ہے۔ بہت سی آیات و احادیث اس کو بیان کرتی ہیں۔ فی الحال یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی ایجاد سے موجود ہیں اور بہت سے دلائل کے ساتھ اس کا ثبوت موجود ہے۔ ان دونوں کے لیے فنا و عدم نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بقا کی غرض سے بنایا ہے۔ البتہ کسی آیت و حدیث سے صاف طور پر معلوم نہیں ہوتا کہ جنت و جہنم بالفعل کہاں ہیں۔ زمین کے نیچے ہیں یا آسمان کے اوپر؟ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جہاں رکھنا چاہا، وہیں پر وہ موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ جہان اور اس کی مخلوقات کا ہمیں تفصیلی علم نہیں ہے کہ ہم ان کا پتا بتائیں۔ بہر حال ہم اللہ تعالیٰ سے بلند درجات کے ساتھ بہشت بریں کا سوال کرتے ہیں اور جہنم اور اس کے تمام طبقات سے پناہ چاہتے ہیں۔ اہلِ جنت جنت سے کبھی نکالے نہیں جائیں گے، اسی طرح وہ جہنمی جو جہنم ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں، ابد الآباد تک اس سے باہر نہیں نکالے جائیں گے۔ جب جہنم سے تمام اہلِ اسلام رہا ہو جائیں گے اور کفار کے سو اکوئی مومن اس میں باقی نہ رہے گا، اس وقت ایک منادی آواز دے گا کہ اے اہلِ جنت! اب یہاں ہمیشگی کا قیام ہے موت کا نام نہیں، اور اے اہلِ جہنم! اب تم ہمیشہ یہاں رہو گے، تمھیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ صحیح حدیث میں یہ بات موجود ہے۔[1] کبائر کا مرتکب مسلمان ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا، اگرچہ وہ توبہ کیے بغیر فوت ہوا ہو۔ خرقِ عادت کے طور پر اسے ہر طرح کے عذاب سے معافی مل جانا بھی ممکن ہے، کیونکہ دنیا اور آخرت میںاللہ تعالیٰ کے افعال دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ جو بطریقِ عادت مروجہ کے سبب کثیر الوقوع اور عام طور پر واقع ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو خاص طور پر قلیل الوجود، خرقِ عادت اور خلافِ طبع متعارف ہیں۔ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو توبہ کے بغیر کلی نجات مل جانا اسی دوسرے طریق میں شمار ہوتا ہے۔ اس مسئلے میں بہ ظاہر جن نصوص کے اندر باہم دگر تعارض معلوم ہوتا ہے، ہماری اس تقریر سے وہ تعارض رفع ہو جاتا ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ ٭٭٭
Flag Counter