Maktaba Wahhabi

305 - 548
قصور ہے، کیوں کہ رسالت جیسا عظیم نظام جس مقصد کے لیے قائم کیا جائے، وہ زندگی سے غیر متعلق نہیں ہو سکتا۔ علامہ بدیع الدین شاہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’توحید ہی سے عمل صالح کی طرف رغبت ہوتی ہے ۔۔۔ توحید ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی بدولت ایک مومن نیکی، عمل صالح، اخلاق حسنہ، ایمان داری اور راست بازی پر قائم رہ سکتا ہے۔ بلکہ اسی توحید سے انسانیت کا نظام برقرار رہ سکتا ہے اور اسی سے امت کے درمیان اتحاد واتفاق قائم رہتا ہے۔ توحید ہی کی بدولت آپس میں بگڑے ہوئے دل ملیں گے، بغض، حسد اور کینے سے صاف ہوں گے۔‘‘ زندگی سے توحید کا رشتہ سمجھنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے حالات پر نظر ڈالیے، کس طرح ان نفوس قدسیہ نے ہر طرح کی آزمایش میں صبر کیا اور حق کی سربلندی کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کی۔ ان کے دور میں دنیوی سازو سامان اور مادی وسائل سے مالا مال اقوام اہلِ توحید کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ توحید کی متاعِ عزیز سے ان کا دامن خالی تھا، اس لیے مسلمانوں کے مقابلے میں انھیں ہزیمت سے دو چار ہونا پڑا اور شان وشوکت کے مظاہر انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ اسلام میں توحید کی اہمیت کے پیش نظر ائمہ دین اور علماے اسلام نے ہر دور میں اس عقیدے کی شرح وتفصیل پر توجہ دی، محدثین کرام نے مجامیع حدیث میں مستقل کتب، فصول اور ابواب منعقد کیے اور اس طرح اس عقیدے کو ذہن نشین کرایا۔ علامہ بدیع الدین رحمہ اللہ نے ’’ہدایۃ المستفید‘‘ پر جو مقدمہ تحریر فرمایا، اس میں اختصار کے ساتھ علما کی ان خدمات کا ذکر کیا ہے، جو عقیدۂ توحید کی شرح وتفصیل میں سامنے آئی ہیں۔ اس خدمت میں ایک معتدبہ حصہ برصغیر کے علماے اہلِ حدیث کا بھی ہے۔ ان مخلصین نے اپنے اپنے وقت میں توحید کی تائید اور شرک کی تردید میں عربی و اردو دونوں زبانوں میں مسلسل کام کیا ہے، جس کے خوشگوار اثرات ہمارے سامنے ہیں۔ امت کا ایک حصہ ان مساعی جمیلہ کی بیخ کنی پر آمادہ نہ رہتا تو برصغیر میں توحید کی اشاعت کا حال دوسرا ہوتا اور آج جو ایمان سوز نظارے آنکھوں کے سامنے ہیں، نظر نہ آتے۔ برصغیر میں علومِ اسلامیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیے تو نواب عالی مقام، ناشر السنۃ النبویۃ،
Flag Counter