Maktaba Wahhabi

335 - 548
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’جس توحید کو سارے انبیا لائے ہیں، وہ یہی توحیدِ الوہیت ہے۔ یعنی بندہ صرف اکیلے اللہ کو معبود مانے، اسی پر بھروسا کرے، دوستی اور دشمنی صرف اسی کے لیے ہو، جو کام کرے، اسی کے لیے کرے اور جو کام نہ کرے، اسی کے لیے نہ کرے۔ اس توحید میں اللہ کے نیک ناموں اور صفتوں کو ثابت ماننا لازم ہے۔ قرآنِ مجید میں اس توحید کی بہت سی دلیلیں ہیں۔ توحید سے مراد صرف توحیدِ ربوبیت ہی نہیں ہے کہ اکیلے اللہ کو خالقِ کائنات جانیں، جس طرح اہلِ کلام وتصوف سمجھتے ہیں، کیونکہ صرف اللہ کو ہر شے کا خالق سمجھنے سے کوئی موحد نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ کی شہادت نہ دیتا ہو، یعنی یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے۔ عرب کے مشرکین بھی اللہ کو ہر شے کا خالق کہتے تھے، اس کے باوجود بھی وہ مشرک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَ مَا یُؤْمِنُ أَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ إِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ [یوسف: ۱۰۶] [یعنی اکثر ایمان لانے والے مشرک ہو تے ہیں] ’’سلف کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ جب ان لوگوں سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے بنایا ہے؟ تو وہ یہی کہیں گے کہ اللہ نے بنایا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ہر وہ شخص جو اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ہر شے کا رب وخالق اللہ ہے تو اس سے وہ اللہ کی عبادت کرنے والا، اس کو پکارنے والا، اس سے امید و خوف رکھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ اس بات کا اقرار تو عام مشرکین بھی کیا کرتے تھے، مگر وہ اپنے سفارشیوں کو اللہ کا ہم سر قرار دیتے تھے۔ قرآنِ کریم میں اس کا ذکر بہت جگہ آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض چاند، سورج اور تاروں کو سجدہ کیا کرتے تھے، ان کے نام کا روزہ رکھتے، ان کے لیے جانور ذبح کرتے اور ان کی قربت چاہتے، پھر یہ بات کہتے کہ یہ کام شرک نہیں ہے، شرک تو جب ہوتا کہ ہم ان چیزوں کو مدبر عالم (سارے جہان کا انتظام سنبھالنے والا) سمجھتے، ہم تو ان کو صرف ایک واسطہ، ذریعہ اور قاصد جانتے ہیں، اس لیے ہم مشرک نہیں ہوئے، حالانکہ دین اسلام سے قطعی طور پر معلوم ہے کہ یہ کام شرک ہے۔‘‘[1]
Flag Counter