Maktaba Wahhabi

345 - 548
[جس میں تین خصلتیں ہوں گی، وہ منافق ہے، ایک یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، دوسرے یہ کہ جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، تیسرے یہ کہ جب جھگڑا کرے تو بے ہودہ گوئی کرے] ’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نفاق کی ان دونوں قسموں کے احوال واوصاف ذکر کیے ہیں اور حدیثوں میں بھی یہ بیان ہوئے ہیں، تاکہ امت ان امور سے آگاہ ہوکر ڈرے اور پرہیز کرے۔ اس امت میں منافقین کا نمونہ دیکھنا ہو تو امرا و روسا کی مجلس میں جاکر ان کے مصاحبوں کو دیکھو کہ کس طرح یہ مصاحبین اپنے امرا کی مرضی کو شارع علیہ السلام کی مرضی پر مقدم رکھتے اور ترجیح دیتے ہیں۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو بلا واسطہ سن کر نفاق اختیار کیا تھا اور جس نے اب شارع علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم کو یقینی طریقے سے معلوم کرکے نفاق کو اختیار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر اقدام کیا ہے، ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ جن اہلِ معقول کے دلوں میں شکوک و شبہات جاگزیں ہو گئے ہیں اور وہ آخرت کو بالکل فراموش کر چکے ہیں، یہی منافقین کے نمونے ہیں۔ جب کوئی شخص قرآن پڑھے تو ہرگز یہ خیال نہ کرے کہ اس میں جن منافقین اور گمراہ لوگوں کی مخالفت و تردید کا ذکر ہے، وہ لوگ ختم ہوگئے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جو گمراہی اور خرابی پہلے زمانے میں تھی، وہ آج بھی موجود ہے، چنانچہ یہ حدیث اس پر دلیل ہے: (( لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ )) [1] [یعنی ضرور تم پہلی امتوں کے طریقوں پر چلوگے] ’’ایمان کی شان یہ ہے کہ قرآنی تلاوت کے وقت اپنے ہر حال وقال کو اس کی آیات سے موازنہ کرے۔ فرقان کے ترازو میں اپنے عقائد واعمال کو تولے اور یہ سمجھے کہ یہ آیت اسی کے حق میں اتری ہے، اس لیے کہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوصِ سبب کا نہیں۔
Flag Counter