Maktaba Wahhabi

363 - 548
حدیثِ ابو ذر رضی اللہ عنہ کا یہی مطلب ہے کہ وجودِ توحید کے ساتھ زنا کاری اور چوری دخولِ جنت سے مانع نہیں ہوتی ہے۔ یہ بات حق ہے، اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ ان حدیثوں سے یہ نہیں نکلتا کہ توحید کے ساتھ بالکل عذاب نہیں ہوگا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ قَالَ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، نَفَعَتْہُ یَوْماً مِنْ دَھْرِہٖ، یُصِیْبُہٗ قَبْلَ ذٰلِکَ مَا أَصَابَہٗ )) [1] [جس نے ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ کہا تو یہ کلمہ کسی روز ضرور اس کو نفع پہنچائے گا، چاہے اس سے پہلے گناہوں کی سزا پائے] دوسری قسم کی حدیثیں وہ ہیں، جن میں آیا ہے کہ اس کلمے کے قائل پر جہنم حرام ہے۔ اس کو بعض اہلِ علم نے اس معنی پر محمول کیا ہے کہ اس پر خلود فی النار حرام ہے یا وہ جہنم کی اس آگ پر حرام ہے، جس میں اہلِ جہنم ہمیشہ رہیں گے۔ یہ آگ جہنم کے طبقہ اعلی کے علاوہ ہوگی، کیونکہ گناہ گار موحدین کی ایک کثیر جماعت اپنے گناہوں کے سبب طبقہ اعلی میں جائے گی، پھر سفارشیوں کی شفاعت اور اللہ ارحم الراحمین کی رحمت سے نجات پاکر جنت میں داخل ہو گی۔ صحیحین میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مجھ کو قسم ہے اپنی عزت وجلال کی! میں جہنم سے ان لوگوں کو ضرور باہر نکالوں گا جنھوں نے ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ کہا ہے۔‘‘[2] علما کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ ان حدیثوں سے مراد یہ ہے کہ ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات پانے کا سبب ہے۔ ان احادیث کا مقتضا و منشا بھی یہی ہے، لیکن مقتضا پر اعتماد اسی وقت درست ہوگا، جب اس کی سب شرطیں موجود ہوں اور موانع نہ ہوں، کیونکہ کبھی مقتضا اپنی شروط میں سے کسی شرط کے فوت ہو جانے یا موانع میں سے کسی مانع کے پائے جانے کے سبب پیچھے ہو جاتا ہے۔ امام حسن اور وہب بن منبہ رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ حکایت: فرزدق جس وقت اپنی بیوی کو دفن کر رہے تھے تو ان سے امام حسن رحمہ اللہ نے کہا: اس دن
Flag Counter