Maktaba Wahhabi

397 - 548
(( حُکْمِيْ عَلَی الْوَاحِدِ کَحُکْمِيْ عَلَی الْجَمَاعَۃِ )) [1] [ایک شخص پر میرا حکم جماعت پر حکم کی طرح ہے] بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ کسی گذشتہ قصے کے بارے میں جو حکم کسی خاص سبب کی بنا پر نازل ہوا ہے، وہ لازم ہے نہ کہ متعدی الی الغیر، تو یہ قول سب سے بڑا باطل اور سب جھوٹوں میں سے بڑا جھوٹ ہے، اس سے سارے احکام شرعیہ کا معطل ہونا لازم آتا ہے، کیونکہ حدود وجنایات اور مواریث ودیات کی آیات خاص واقعات ومعاملات کے بارے میں نازل ہوئی ہیںجو گزر چکے ہیں اور ان معاملات والے بھی دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں جن کے حق میں وہ آیتیں نازل ہوئی تھیں، لیکن ان کا حکمِ عام قیامت تک کے لیے باقی ہے۔ عام اپنے سبب پر محدود نہیں ہوتا ہے۔ مکلف معدوم سے شرعی خطابات کا تعلق ایک معنوی تعلق ہے اور مکلف موجود ہر دور میں ان کا مخاطب ہوا کرتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بنی اسرائیل کے بارے میں نازل شدہ آیات سے متعلق کہا ہے: ’’إنہ علینا مثلھم‘‘ [یہ انھیں کی طرح ہمارے لیے نازل ہوئی ہیں] بعض لوگوں کا کہنا ہے: ’’نعم الإخوۃ بنو إسرائیل إذا کان کل حلوۃ لکم، ولھم کل مرۃ‘‘ [بنی اسرائیل کیا اچھے بھائی ہیں کہ ہر میٹھا تمھارا اور ہر کڑوا ان کے لیے ہوتا] اصولِ فقہ میں لکھا ہے کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک پہلی شریعتیں ہمارے لیے بھی شریعت ہیں۔[2] امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک شرط یہ ہے کہ پہلی شریعتوں کی تقریر وتصدیق ہماری شریعت میں وارد ہوئی ہو۔ اس میں شک نہیں ہے کہ ہماری شریعت میں ان مسائل کو مقرر رکھا گیا ہے اور اس پر کتاب وسنت بھی ناطق ہیں۔ یہ تو مذکورہ بالا سوال کا جواب ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے اور جس بات پر مشرکینِ عرب سے قتال کیا تھا، نیز ان کے بارے میں قرآن کی محکم آیتیں نازل ہوئی تھیں اور وہ منسوخ نہیں ہیں، تو یہ احکام ومسائل اول وآخر سب کے لیے یکساں ہیں، بلکہ
Flag Counter