Maktaba Wahhabi

401 - 548
سے عرض کی: ’’فأنت أحق أن نسجد لک‘‘ (آپ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ذرا خیال کرو، اگر تم میری قبر پر گزرو تو کیا تم میری قبر پر سجدہ کروگے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ تو فرمایا: ’’مت کرو۔‘‘[1] یعنی ایک روز وفات پاکر میں بھی مٹی کے ساتھ ملنے والا ہوں، تو میں کب سجدے کے لائق ہوں؟ سجدہ تو صرف اسی ذات کے لائق ہے جو کبھی نہ مرے۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ سجدہ کسی زندے کو کرنا ہے نہ کسی مرے کو، نہ کسی قبر کو اور نہ کسی استھان کو، کیونکہ جو زندہ ہے وہ ایک دن مرنے والا ہے اور جو مرگیا وہ کبھی زندہ تھا اور بشریت کی قید میں گرفتار تھا، اب مرکر وہ کوئی خدا نہیں بن گیا ہے، وہ بندہ ہی بندہ ہے۔ 5۔پانچویں آیت[2]﴿سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَ مَاْوٰھُمُ النَّارُ وَ بِئْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ﴾ [آل عمران: ۱۵۱] سے معلوم ہوا کہ اشراک باللہ کسی ملت میں نہ تھا۔ 6۔چھٹی آیت ﴿لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾ [آل عمران: ۱۸۶] سے یہ بات ثابت ہوئی کہ تم اہلِ کتاب اور مشرکین سے ایذا دہی کی باتیں سنو گے۔ وہ تمھارے دین پر طعن کریں گے اور تم کو جان ومال اور آبرو کا نقصان پہنچائیں گے،اس صورت میں اگر تم ان کی ایذا دہی اور طعنہ زنی پر صبر وتحمل کرکے تقوی اختیار کروگے تو بلا شبہہ یہ ہمت کا کام ہے۔ 7۔ساتویں آیت ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا﴾ [النساء: ۱۱۶] میں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو نہیں بخشتا ہے، چاہے کسی کافر سے شرک ہو یا مومن سے صادر ہو، البتہ شرک کے سوا جو
Flag Counter