Maktaba Wahhabi

434 - 548
ایمان لایا اور تقدیر پر ایمان نہ لایا تو وہ مکذب توحید ہے۔[1] دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو بڑے عبادت گزار اور اوراد ووظائف والے ہیں، لیکن توکل واستعانت میں ناقص ہیں۔ ان کی نظر اسباب سے مسبب کی طرف نہیں جاتی اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اسباب تقدیر سے مرتبط ہوتے ہیں۔ اگر وہ اللہ پر پورا بھروسا کرتے تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جاتا۔ اگر کوئی سوال کرے کہ استعانت کی حقیقت عملی طور پرکیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حقیقت یہی ہے جسے توکل کہتے ہیں۔ یہ دل کی ایک حالت ہے جو اللہ کی معرفت، خلق، امر، تدبیرِ نفع اور ضرر میں اس کی یکتائی کے تصور سے پیدا ہوتی اور یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ اللہ نے جو چاہا ہوا اور جو نہ چاہا نہیں ہوا۔ یہ حالت اللہ پر یقینی اعتماد پیدا کرکے ہر کام اس کے حوالے کرا دیتی ہے۔ کارساز ما بفکر کار ما فکر ما در کار ما آزار ما [ہمارا کار ساز (اللہ) ہمارے کام کی تدبیر میں لگا ہوا ہے، ہمیں اپنے کام کی فکر کرنا اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالنا ہے] توکل کی حالت میں بندہ اپنے معبود برحق کے سامنے ایک بچے کی مثل ہے، جو رغبت وخوف کے وقت ماں باپ کے سامنے ہوتا ہے۔ کوئی بھی آفت آئے، بچہ ماں باپ کی طرف جھکتا ہے، ان کو چھوڑ کر کسی اور کے سامنے التجا نہیں کرتا، پھر اگر بندے کو اس اعتماد کے ہمراہ تقوی بھی نصیب ہو گیا تو پھر عاقبت محمودہ کا کیا پوچھنا! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا * وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ﴾ [الطلاق: ۲ ، ۳] [اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے راستہ نکال دیتا ہے، اور اس کو رزق وہاں سے دیتا ہے جہاں اسے گمان نہیں ہوتا، اور جوشخص اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے] نیز فرمایا:
Flag Counter