Maktaba Wahhabi

436 - 548
﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ ﴾ [النسائ: ۱۲۵] [اور کس کا دین اس شخص سے اچھا ہو سکتا ہے جس نے اپنا منہ اللہ کے سامنے جھکا دیا اور وہ نیکی میں لگا ہوا ہے] مذکورہ آیت کریمہ میں عمل حسن سے مراد بھی عمل مذکور ہے۔ حدیث: (( کُلُّ عَمَلٍ لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ )) [ہر وہ عمل جس کا ثبوت ہمارے دین وشریعت میں نہ ہو، مردود ہے] میں اسی عمل کا ذکر ہے، کیونکہ ہر عمل رسول کی متابعت کے بغیر اللہ سے دوری زیادہ کر دیتا ہے۔ اللہ کی عبادت اس کے حکم کے مطابق کی جاتی ہے، کسی اور کی خواہش اور رائے سے نہیں۔ 2۔دوسری قسم یہ ہے کہ عبادت میں اخلاص ہو نہ متابعتِ رسول۔ اس قسم کے لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ ان کے اعمالِ خیر دکھانے، سنانے اور جتانے کے لیے ہوتے ہیں اور وہ صراطِ مستقیم سے منحرف ہوتے ہیں۔ یہ ریاکاری اہلِ فقہ وعلم اور اصحابِ فقر وعبادت میں سب سے زیادہ ہوتی ہے، الا ما شاء اللہ۔ یہی لوگ بدعت و ضلالت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی کام کیے بغیر ہی ان کی تعریف کی جائے۔ 3۔تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اعمال میں مخلص ہیں، مگر متابعتِ رسول کے بغیر عمل کرتے ہیں، جیسے جاہل عابد زاہد فقیر اور پیر بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر وہ عابد ہے جو اللہ کی منشا و مراد کے خلاف عبادت کرے، حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس کی مراد کے مطابق کرنی چاہیے۔ اس طبقے میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو خلوت میں بیٹھ جاتے ہیں۔ جمعہ، جماعت اور عید وحج سے کوئی مطلب نہیں رکھتے، اپنی خلوت نشینی کو قربت وعبادت سمجھتے ہیں، یہ لوگ صومِ وصال بھی رکھتے ہیں اور اس روزے کو اللہ کے ہاں تقرب کا ایک بڑا وسیلہ کہتے ہیں۔ 4۔چوتھی قسم یہ ہے کہ اعمال اللہ ورسول کے حکم کے موافق ہیں، لیکن غیر اللہ کے لیے کیے گئے ہیں، جیسے اہلِ ریا و شہرت کی طاعات و خیرات کہ ہر چند بہ ظاہر جہاد و حج اور علم و تالیف میں مشغول رہتے ہیں، لیکن مقصد یہ ہوتا ہے کہ بہادر، حاجی، مولانا اور مصنف کہلائیں۔ ان کے یہ اعمال اگرچہ صالحہ ہیں، لیکن مقبول نہیں، بلکہ مردود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ﴾ [البینۃ: ۵]
Flag Counter