Maktaba Wahhabi

442 - 548
فرمایا: آج کس نے بیمار کی عیادت کی ہے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: آج کون جنازے کے ساتھ گیا ہے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے لیے جنت واجب ہو گئی۔ یہ کلمہ دو بار فرمایا۔‘‘[1] سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے راہِ خدا میں کسی چیز کا جوڑا خرچ کیا تو اسے جنت میں پکارا جائے گا: اے اللہ کے بندے! یہ تیرے لیے خیر ہے۔ جنت میں کئی دروازے ہیں۔ جو کوئی اہلِ نماز سے ہوگا وہ بابِ صلات (نماز کے دروازے)سے، جو اہلِ جہاد سے ہوگا، وہ بابِ جہاد سے، جو اہلِ صدقہ سے ہوگا وہ بابِ صدقہ سے اور جو روزے والوں میں سے ہوگا، وہ بابِ ریان سے بلایا جائے گا۔‘‘ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کوئی ایسا بھی ہو گا جسے سب دروازوں سے بلایا جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں! مجھے امید ہے کہ تم انھیں میں سے ہو گے۔‘‘[2] اس حدیث کو امام مالک نے موصولاً ومسنداً اور دوسرے ائمہ حدیث نے مرسلاً روایت کیا ہے۔ حدیث مذکور میں جوڑا خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک نوع کی دو چیزیں دی جائیں، جیسے دو درہم، دو روپیا، دو گھوڑے، دو کپڑے دینا یا دو قدم راہِ خدا میں چلنا یا دو روزے رکھنا وغیرہ، شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد۔ واللہ اعلم۔ یہ ہے کہ کسی عملِ خیر پر مداومت کی اقل صورت یہ ہے کہ کوئی چیز جوڑا دی جائے، کیونکہ دو (۲) اقل جمع ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے بارش جہاں کہیں برسے گی، نفع دے گی۔ صاحبِ عبادت مطلق کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ اللہ کا مصاحب بلا مخلوق کے ہے اور مخلوق کا مصاحب بلا نفس کے ہے، یعنی جب اللہ کے ساتھ ہوگا تو سب مخلوق یہاں تک کہ آل واولاد سے بھی عزلت گزیں اور خلوت نشین ہوگا اور جب مخلوق کے ساتھ ہوگا تو نفس کو درمیان سے الگ کرکے سارا دھیان اللہ کی طرف کر لے گا۔ ایسا شخص لوگوں کے درمیان سخت وحشت زدہ رہے گا اور اللہ کے ساتھ اس کو انس وسکون اور فرحت وطمانینت رہے گی۔ غرض کہ یہ طریقہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے،
Flag Counter