Maktaba Wahhabi

444 - 548
کی شکل میں حاصل ہوگی، جس طرح کسی مزدور کو اس کے کام کی اجرت ملا کرتی ہے۔ اس کی دلیل کے طور پر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کو جنت کا عوض قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ نُوْدُوْٓا اَنْ تِلْکُمُ الْجَنَّۃُ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ [الأعراف: ۴۳] [اور انھیں پکارا جائے گا کہ یہ جنت ہے، تم اپنے عمل کے بدلے اس کے وارث ہوئے ہو] دوسری جگہ فرمایا: ﴿اِِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ [الزمر: ۱۰] [صبر کرنے والوں کو ان کا پورا ثواب بے حساب دیا جائے گا] حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (( إِنَّمَا ھِيَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیْھَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیْکُمْ إِیَّاھَا )) [1] [یہ تمھارے اعمال ہیں جن کو میں تمھارے لیے محفوظ رکھتا ہوں، پھر تم کو ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا] ان آیات اور حدیث میں عبادت کے عوض کا نام اللہ تعالیٰ نے جزا اور اجر وثواب رکھا ہے، اس لیے کہ یہ ایک ایسی شے ہے جو عامل کو اس کے عمل کے سبب سے ملتی ہے اور اسی کے پاس لوٹ کر آتی ہے۔ قیامت کے روز اعمال کا وزن کیا جانا بھی اس کی دلیل ہے۔ اگر اعمال سے ثواب کا تعلق بہ طور عوض نہ ہوتا تو اعمال کے وزن کیے جانے کا کوئی معنی نہ ہوتا۔ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے متقابل اور متضاد ہیں۔ فرقہ جبریہ کے نزدیک جزا وسزا کا تعلق اعمال سے نہیں ہے، اس لیے اس فرقے نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ جس شخص کی ساری عمر طاعت میں فنا ہوگئی ہے، اس کو اللہ تعالیٰ عذاب کر سکتا ہے اور جس کی تمام عمر مخالفت میں گزری ہے، اس کو راحت دے سکتا ہے۔ یہ دونوں باتیں اللہ پاک کی بہ نسبت برابر ہیں اور ان سب کا مرجع محض مشیتِ الٰہی ہے۔ قدریہ نے اللہ پر مصالح ومفادات کی رعایت کو واجب قرار دیا ہے اور ان تمام کو محض اعمال کا نتیجہ بتایا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ بندے کو عمل کے بغیر ثواب ملنے میں ایک طرح کا نقصان ہے کہ صدقے کا احسان لے لیا اور قیمت نہیں دی۔ گویا
Flag Counter