Maktaba Wahhabi

457 - 548
کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر کوئی شرک پر مرگیا تو اللہ اس کو نہیں بخشتا اور شرک سے کم تر گناہ کو بخش دیتا ہے، چاہے کبیرہ ہی کیوں نہ ہو اور اس سے توبہ بھی نہ کی ہو۔ حاصل یہ ہے کہ شرک توبہ سے بخش دیا جاتا ہے اور شرک کے ما سوا کی مغفرت کا وعدہ غیر تائب کے لیے ہے۔ یعنی مشرک غیر مغفور اور گناہ گار مغفور ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : (( مَنْ لَقِيَ اللّٰہَ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَلَمْ تَضُرَّہٗ خَطِیْئَۃٌ )) [1] [جس نے اللہ سے ملاقات کی، اس حال میں کہ کسی چیز کو اس کے ساتھ شریک نہیں ٹھہرایا تو وہ جنت میں جائے گا، اس کو کوئی گناہ نقصان نہیں دے گا] ’’آیت میں ﴿لمن یشائ﴾ کی قید اس کو عموم سے خارج نہیں کرتی ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿اَللّٰہُ لَطِیْفٌم بِعِبَادِہٖ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ﴾ [الشوریٰ: ۱۹] [اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے جسے چاہتا ہے روزی دیتا ہے] ’’سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ قرآن میں کوئی آیت مجھے اس آیت سے زیادہ محبوب نہیں ہے۔ ترمذی نے اس کو حسن غریب کہا ہے۔[2] معتزلہ کا یہ کہنا کہ آیتِ شرک میں ﴿لمن یشائ﴾ سے مراد تائب شخص ہے، باطل ہے، اس لیے کہ توبہ سے تو کفر بھی بخش دیا جاتا ہے، چنانچہ یہ آیت اس پر دلیل ہے: ﴿قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَھُوْا یُغْفَرْلَھُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ﴾ [الأنفال: ۳۸] [اے نبی! کہہ دو کافروں سے کہ اگر وہ (کفر سے) باز آجائیں تو ان کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے] اس سے معلوم ہوا کہ جو گناہ کفر سے کم تر ہے، وہ بدرجہ اولی توبہ کرنے سے معاف ہو سکتا ہے، لیکن آیت کا سیاق ان دو صورتوں کے درمیان فرق بیان کرنے کے لیے ہے۔‘‘ انتھی۔[3] 4۔امام علاء الدین خازن کی تفسیر: تفسیر خازن میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی کے قصے کے ذکرکے بعد امام رازی رحمہ اللہ کی
Flag Counter