Maktaba Wahhabi

485 - 548
حدیث کی وضاحت: حدیثِ عدویٰ اور مجذوم وغیرہ سے فرار کی حدیث کے بارے میں امام شوکانی رحمہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ عام کو خاص پر حمل کرنا چاہیے، یعنی مجذوم سے بھاگنے اور بچنے کے بارے میں جو حدیثیں آئی ہیں، ان میں اور حدیثِ عدویٰ میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ وہ احادیث حدیثِ عدوی کے عموم کی مخصص ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ عدویٰ صرف ان ہی امور میں ہے، اسی طرح شوم صرف ان تین چیزوں میں ہے۔ تقویۃ الایمان کے الفاظ یہ ہیں: ’’اس سے معلوم ہوا کہ یہ چیزیں کبھی نا مبارک بھی ہوتی ہیں، مگر اس کے معلوم کرنے کی راہ نہیں بتائی کہ کس طرح معلوم کیا جائے کہ یہ مبارک ہے اور وہ نا مبارک۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو مکان شیر کی شکل وصورت کا ہو اور جو گھوڑا ستارہ پیشانی ہو اور جو عورت گنجی ہو تو نا مبارک ہوتی ہے، اس کی کوئی سند نہیں ہے۔ بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان باتوں کا خیال نہ کریں۔ جب نیا مکان لیں یا گھوڑا ہاتھ لگے یا بیاہ کریں یا لونڈی خریدیں تو اللہ سے اس کی بھلائی مانگیں اور اس کی برائی سے پناہ چاہیں۔ باقی اور چیزوں میں اس قسم کے خیالات نہ دوڑائیں کہ فلاں کام مجھے راست آیا اور فلاں نہ آیا۔‘‘[1] سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آیا ہے کہ جس کو بد فال نے اس کے کام سے پھیر دیا، اس نے شرک کیا۔[2] فال بد سے بچنے کا کفارہ یہ ہے کہ یوں کہے: (( اَللّٰھُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ وَلَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ وَلَا إِلٰہَ غَیْرُکْ ))(رواہ الطبراني) [3] [اے اللہ تیرے خیر کے سواکوئی خیر نہیں، تیری فال کے سوا کوئی فال نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے] جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اس کو فال بد ضرر نہیں پہنچاتی ہے۔ اس شرک کا ضرر اسی کو ہوتا ہے جو فالِ بد لیتا ہے۔
Flag Counter