Maktaba Wahhabi

497 - 548
اس حکم میں ہر معظم شخص، بادشاہ ہو یا پیر یا ولی یا نبی، کی قسم کھانا داخل ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آیا ہے کہ ’’جس نے قسم کھانا ہو، وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔‘‘ (متفق علیہ) [1] اس نہی میں ہر شے داخل ہے، جیسے نبی، ملائکہ، کعبہ، امانت، حیات اور روح کی قسم کھانا۔ سب سے زیادہ مکروہ امانت کی قسم کھانا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے اپنی قسم میں یوں کہا: ’’باللَّاتِ وَالْعُزّٰی‘‘ اب وہ یوں کہے: ’’لَا إِلٰہ إِلَّا اللّٰہُ‘‘[2] یعنی اگر زبان سے ایسا کلمہ عادتِ جاہلیت کی بنا پر نکل جائے تو فوراً توحید خالص کے اقرار سے اس کا تدارک کرنا چاہیے۔ عرب کے لوگ کفر کی حالت میں بتوں کی قسم کھاتے تھے، اسی طرح اہلِ شرک وکفر میں جو قسم کھانے کی رسم جاری ہے، ایسی قسم کھانے سے ایمان میں خلل آجاتا ہے۔ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے ملتِ اسلام کے علاوہ کاذب ہو کر دوسرے دین کی جھوٹی قسم کھائی تو وہ ویسا ہی ہے جیسا اس نے کہا ہے۔‘‘ [3] یعنی محض قسم کھانے سے یا قسم شکنی کے بعد کافر ہو جاتا ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اگر قسم ماضی پر کھائی ہے تو محض قسم سے کافر ہوگیا اور اگر مستقبل پر قسم کھائی ہے تو قسم شکنی کے بعد کافر ہو جائے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم باپ ماں اور انداد کی قسم نہ کھاؤ، اور اللہ کی جھوٹی قسم نہ کھاؤ۔‘‘ (رواہ أبو داؤد والنسائي) [4] یہاں ’’انداد‘‘ سے مراد شرکا ہیں، چاہے حیوان ہو ں یا جماد، زندہ ہوں یا مردہ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قسم کھاتے تو ’’لَا وَأسْتَغْفِرُ اللّٰہَ‘‘ کہتے۔ اس کو امام ابو داود اور امام ابن ماجہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ [5] مطلب یہ ہے کہ اگر بات اور طرح پر ہو تو میں استغفار کرتا ہوں۔ ان احادیث کا حاصل یہ
Flag Counter