معلوم ہوا کہ جو لوگ ہاتھ اور پاؤں کی کسی بیماری میں کسی چیز کا کوئی چھلا یا کڑا اس اعتقاد سے پہنتے ہیں کہ اس سے مرض دفع ہوتا ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ مرض کا علاج دوا کھانے، پینے اور مالش کرنے کے ذریعے کرنا چاہیے، ایسی چیز پر اعتماد نہ ہو جس میں شرک کی بو آتی ہو، جیسے ٹوٹکے وغیرہ میں اللہ سے غفلت اور غیر سے استعانت ہوتی ہے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ ’’جس نے تمیمہ (تعویذ گنڈا، مالا) لٹکایا تو اللہ اس کو پورا نہ کرے اور جس نے کوئی ودعہ (کوڑی، گھونگا) آشوبِ چشم کے لیے لٹکایا تو اللہ اس کو آرام نہ دے۔‘‘ (رواہ أحمد) [1]
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دفع مرض کے لیے دونوں قسم کی چیزوں کے لٹکانے پر بد دعا دی ہے۔ مسند احمد کی دوسری روایت میں ہے کہ ’’جس نے تعویذ گنڈا لٹکایا تو اس نے یقینا شرک کیا۔‘‘[2]
یہ حدیث پہلی حدیث سے بھی زیادہ صریح ہے۔ امام ابن اثیر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کو شرک اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس میں تقدیر مکتوب کے دفع کا ارادہ اور غیر اللہ سے دفعِ مصیبت کی درخواست ہے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک بزرگ صحابی ہیںجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں کہے جاتے ہیں۔ انھوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں بخار کا گنڈا بندھا ہوا دیکھا تو اس کو توڑ ڈالا اور یہ آیت پڑھی:
﴿وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُھُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ھُمْ مُّشْرِکُوْنَ﴾ [یوسف: ۱۰۶]
[اللہ پر ایمان رکھنے والوں میں اکثر مشرک ہیں]
دوسری روایت میں ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک بیمار کے بازو میں چمڑے کا ایک ٹکڑا دیکھا، اس کو کھینچ کر توڑا اور یہ آیت پڑھی: ﴿وَمَا یُؤْمِنُ۔۔۔ الآیۃ﴾ [3]
معلوم ہوا کہ جاہل لوگ دفعِ بخار وغیرہ کے لیے تعویذ اور گنڈے لٹکایا کرتے تھے، جس کا ابطال وازالہ کرتے ہوئے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آیت مذکورہ سے اس کے شرک ہونے پر استدلال کیا ہے، جو اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ نے جو آیت شرک اکبر کے بارے میں نازل کی ہے، اس سے
|