Maktaba Wahhabi

518 - 548
غرض کہ اسلام میں ’’عزی‘‘ کی ساری عزت جاتی رہی۔ مسلمانوں نے لات پر لات ماری اور منات کو کسی نے نہ مانا، بلکہ اسے خاک میں ملا دیا، وللّٰہ الحمد۔ [1] معلوم ہوا کہ کسی شجر، حجر اور قبر وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا شرک اکبر ہے۔ اگر اس کو شرک اصغر کہیں تو بھی سلف شرک اکبر کی دلیل سے شرک اصغر پر استدلال کرتے تھے۔ اب جو شخص مسلمان ہو کر ایسا کام کرتا ہے تو وہ کام بعینہٖ مشرکینِ جاہلیت جیسا ہے، جو حجر وشجر اور قبر کے معتقد تھے۔ حدیثِ ابو واقد رضی اللہ عنہ میں ذاتِ انواط کا قصہ تفصیل سے بیان ہوا ہے، [2] جو اس بات پر دلیل ہے کہ انسان بسا اوقات کسی چیز کو اللہ کے تقرب کا ذریعہ سمجھتا ہے، حالانکہ وہی چیز اس کو اللہ سے دور ڈال دیتی ہے۔ جب ایسی بات بعض صحابہ سے اس وقت میں ظاہر ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس فرمایش پر بنی اسرائیل کے مشابہ قرار دیا تو اس زمانۂ آفت کا کیا ذکر ہے؟ جو بات اہلِ جاہلیت نے کسی درخت یا پتھر کی بابت کہی تھی، وہی کام اس وقت نام کے مسلمان اولیا و صلحا کی قبر و مزار پر کرتے ہیں۔ جس طرح ذاتِ انواط ایک جماد معبود تھا، اسی طرح قبر بھی ایک جماد ہے۔ جیسے درخت پر کپڑے اور ہتھیار بطور تبرک و تعظیم لٹکانا ہے، ویسا ہی قبر پر چادر اور غلاف چڑھانا ہے، ان دونوں میں بوجہ علت جامعہ کوئی فرق وتفاوت نہیں ہے۔ غرض کہ کسی شجر وحجر یا قبرِ بشر سے تبرک کا اعتقاد رکھنا، وہاں مجاورت اختیار کرنا یا جانور ذبح کرنا، شرک جلی اور کفر واضح ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتِ انواط کا سوال کرنے والوں سے فرمایا تھا : ﴿إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ﴾ یعنی تم جاہل لوگ ہو، کچھ نہیں جانتے سمجھتے ہو۔ نیز فرمایا: ((لَتَرْکَبُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ ))تم انھیں اگلوں کی چال پر چلو گے۔[3] (رواہ الترمذي) اس حدیث میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اس امت کے پچھلے لوگ اگلی امتوں کی تقلید کریں گے، پس جیسا فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا۔ یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مسلمانوں کو اہلِ جاہلیت اور اہلِ کتاب کے ساتھ تشبہ نہیں کرنا چاہیے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس امت میں شرک واقع ہونے والا ہے۔ شرک میں جہالت وناواقفیت کو عذر نہیں بنایا جا سکتا، ورنہ نبی اللہ علیہ وسلم اس قدر غصہ نہ فرماتے۔
Flag Counter