Maktaba Wahhabi

521 - 548
نذر کرنے والا نہیں ہوں۔ قوم نے اس کی گردن مار دی اور وہ بہشت میں گیا۔‘‘[1] (رواہ أحمد) اس حدیث میں توحید واخلاص کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور یہ بات بتائی گئی ہے کہ مومنوں کے دل میں شرک ایسی حقیر اور بے قدر شے ہے کہ جان تو جائے مگر ایمان نہ جائے۔ ان بت پرستوں نے صرف ایک ظاہر عمل میں موافقت چاہی تھی، لیکن اس بندۂ خدا نے قتل ہو جانے پر صبر کیا اور شرک نہیں کیا۔ موحد کہ در پائے ریزی زرش وگر آرۂ می نہی برسرش امید وہراسش نباشد زکس ہمین ست بنیاد توحید وبس [موحد کے پاؤں میں سونے کا ڈھیر لگادو یا اس کے سر پر تلوار رکھو، اس کو کسی سے لالچ اور خوف نہیں ہوتا ہے، توحید کی بنیاد فقط یہی ہے] ایک صحیح حدیث میں مروی ہے: (( اَلْجَنَّۃُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہٖ، وَالنَّارُ مِثْلُ ذٰلِکَ )) [2] [جنت تم میں سے کسی کے جوتے کے تسمے سے بھی قریب تر ہے اور یہی حال جہنم کا بھی ہے] بعض اہلِ علم نے آیت کریمہ ﴿لاَ تَقُمْ فِیْہِ أَبَداً﴾ [التوبۃ: ۱۰۸] [مسجد ضرار میں کبھی کھڑا نہ ہو] سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ جس جگہ غیر اللہ کے لیے کوئی جانور ذبح کیا گیا ہے، وہاں اللہ کے لیے ذبح نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول مقبول کو مسجد ضرار میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور آپ کے واسطے سے امت کو بھی یہی حکم ہے۔ اس استدلال کی صورت یہ ہے کہ جب مسجد ضرار میں نماز ممنوع ہوئی تو ذبح لغیر اللہ کی جگہ میں ذبح اور قربانی سے بچنا بدرجہا واجب ہوگا، کیونکہ وہ جگہ اللہ کے غضب کا مقام ہے۔ اللہ نے نماز اور ذبح کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے، اس لیے یہ قیاس بہت صحیح اور جلی ہے۔
Flag Counter