Maktaba Wahhabi

526 - 548
شدت و مصیبت کے ازالے کے لیے خاص ہے، جبکہ دعا عام ہوتی ہے۔ دونوں میں عموم وخصوص مطلق کی نسبت ہے، یعنی ہر استغاثہ دعا ہے اور ہر دعا استغاثہ نہیں ہے۔ دعا کی دو قسمیں ہیں۔ دعاے عبادت اور دعاے مسئلہ۔ قرآن پاک میں کبھی یہ، کبھی وہ اور کبھی دونوں دعائیں مراد ہوتی ہیں۔ اس کا ضابطہ یہ ہے کہ جو امر اللہ کی طرف سے مشروع وماموربہ ہوتا ہے، اس کو غیر اللہ کے لیے کرنا شرک ہوتا ہے۔ جو کوئی کسی ولی سے یوں کہتا ہے: ’’یا سیدي فلان! انصرني وأغثني و ارزقني وعافني‘‘ [اے میرے فلاں آقا! میری مدد کر، میری فریاد رسی کر، مجھے رزق عطا کر اور مجھے عافیت دے] یا کہتا ہے: ’’أنا في حفظک وحمایتک ورعایتک‘‘ [میں تیری حفاظت، حمایت اور نگہبانی میں ہوں] یا اس قسم کے اقوال کہتا ہے تو یہ سب شرک وضلال ہے، اس سے توبہ کرانی چاہیے، اگر توبہ کر لے تو ٹھیک ہے، ورنہ وہ ہلاک ہوگیا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ انواعِ شرک میں سے ایک نوع مُردوں سے حوائج طلب کرنا اور ان سے استغاثہ و استعانت کرنا ہے۔ دنیا جہان کا اصل شرک یہی ہے، حالانکہ میت کا عمل موت ہوتے ہی منقطع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی جان کے نفع و ضرر کا تو مالک ہی نہیں رہتا، پھر مستغیث و مستعین کو کیا نفع دے گا؟ جب اس نے میت سے یہ کہا کہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کر تو یہ سائل کی بالکل جہالت و حماقت ہے کہ شفیع و مشفوع کے حال کی اس کو کچھ بھی خبر نہیں ہے۔[1] شیخ صنع اللہ حنفی نے ان لوگوں کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ اولیا اپنی حیات میں اور بعد الممات بھی تصرف والے ہوتے ہیں۔ مصنف موصوف نے اَبدال و اَوتار، نقبا و نجبا، غوث و قطب اور قبروں پر نذر و نیاز وغیرہ سب کا انکار کیا اور کہا ہے کہ ان سب امور میں شرک کی بدبو، کتاب وسنت سے مصادمت، عقائدِ ائمہ ملت اور اجماعِ امت کی مخالفت جیسی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ [2] پھر تصرفاتِ اولیا کے قول کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیت ﴿ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ﴾ [النمل: ۶۰، ۶۱، ۶۲، ۶۳، ۶۴] [کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے] اور آیت ﴿اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ
Flag Counter