Maktaba Wahhabi

213 - 566
انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے خیالات و خواہشات بالکل ختم ہو جائیں۔ اس لیے کہ انسان پر خیالات کا ایک ہجوم حملہ آور رہتا ہے ، جن پر کنٹرول کرنا اس کے بس میں نہیں رہتا۔ شیطان بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے متعلق انتہائی برے خیالات ڈالتا تھا۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَقَدْ وَجَدْتُّمُوْہُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ۔ قَالَ: ذَاکَ صَرِیْحُ الْاِیْمَان۔)) [1] ’’کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟(یعنی گناہ سمجھتے ہو؟)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ تو واضح ایمان ہے۔‘‘ سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: یارسول اللہ! ہم میں سے کوئی ایک اپنے دل میں وسوسہ پاتا ہے کہ اس کو بیان کرنے سے جل کر کوئلہ ہوجانا اس کے لیے آسان ہے کہ اسے لوگوں کو بتائے آپ نے فرمایا: (( اَللّٰہُ اَکْبَرُ ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔)) [2] ’’اللہ سب سے بڑا ہے (تین بار کہا) تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے شیطان کے مکر کو وسوسہ ڈالنے تک محدود رکھا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف اس بات پر ہے کہ اس نے شیطان کو توفیق نہیں دی کہ وہ تم پر اس خیال کے علاوہ کسی طرح مسلط ہوسکے اوروہ وسوسہ جسے تم نا پسند کرتے ہو، تمہارا اس چیز کو نا پسند کرنا ہی واضح ایمان کی دلیل ہے۔ ان خیالات اور وسوسوں کا علاج کرنا ضروری ہے۔ جب یہ وسوسے انسان پر حملہ آور
Flag Counter