جوخواہشات گمراہ کن نہ ہوں تو وہ ایسی نہیں ہیں اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ڈرایا ہے۔
لیکن یہ بات ضرور ہے کہ گمراہ کن خواہشات بہت زیادہ ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث نبویہ میں اورصحابہ کرام ، تابعین، سلف صالحین اور ان کے بعد بعد آنے والے لوگوں کے آثار و اقوال میں خواہشات کی مذمت کی گئی ہے۔ ان نصوص سے مراد گمراہ کرنے والی خواہشات ہوتی ہیں نہ کہ مطلقاً ساری خواہشات۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جب اکثر طور پر ایسے ہوتا تھا کہ خواہشات اور شہوات کے پیچھے چلنا اس حد پر نہیں رکتا جس سے وہ فائدہ حاصل کرلے ، تو اس لیے ان کے ضرر کا عام غلبہ ہونے کی وجہ سے شہوات اور خواہشات کی مذمت مطلق طور پر کی گئی ہے، اور اس لیے بھی کہ وہ لوگ نادر ہیں جو اس میں اعتدال پر رہتے ہیں ، اور اعتدال کی حد پر رک جاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی خواہشات کا ذکر کیا ہے تو ان کی مذمت کی ہے اور ایسے ہی سنت میں بھی خواہشات کا ذکر مذمت کے ساتھ ہی وارد ہوا ہے۔ ورنہ جہاں ان کا ذکر [اگر اچھے الفاظ میں] ہوا ہے تو اس کے ساتھ قید لگائی گئی ہے۔ ‘‘[1]
سنت میں جو غیر مذموم خواہشات وارد ہوئی ہیں ، ان میں سے ایک سیّدنا عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث بھی ہے ؛ جو کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے گزری ہے۔[2]
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا یُؤمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ۔))[3]
|