Maktaba Wahhabi

304 - 566
میں سے کچھ ایسے ہیں جو کفایہ ہیں اور بہت سارے واجبات ان پر موقوف ہوتے ہیں۔ ‘‘[1] اسی لیے بعض خاص حالات میں ولایت (حکومت) طلب کرنا جائز ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں سیّدنا یوسف علیہ السلام کے متعلق خبر دی گئی ہے کہ انہوں نے مصر کے بادشاہ سے کہا: ﴿ قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴾ (یوسف: ۵۵) ’’(یوسف علیہ السلام )نے کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر معمور کر دیجئے میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں۔‘‘ علامہ ناصر السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ آپ کا یہ منصب طلب کرنا ایسی مصلحت کی بنا پر تھا کہ آپ کے بغیر کوئی دوسرا یہ فریضہ انجام نہیں دے سکتا تھا، جیسا کہ پوری پوری طرح اس (غلہ کو ) محفوظ کرنا ، اور اس خزانے کے تمام پہلوؤں کے متعلق مکمل علم کا ہونا ؛ پھر اس خزانے سے احسن طریقے سے ضرورت کے مطابق نکالنا اوراس میں بہترین تصرف کرنا؛ اور لوگوں کے درمیان مکمل طور پر عدل قائم کرنا۔ جب سیّدنا یوسف علیہ السلام نے دیکھا کہ بادشاہ نے انھیں اپنے لیے بطور خاص چن لیا ہے ؛ اور انھیں خود پر بھی مقدم کردیا ہے اور آپ کو ایک عالیشان مرتبہ پر فائز کردیا ہے، تو آپ کے لیے ضروری تھا کہ بادشاہ اور رعایا کے لیے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کریں، اور یہ خیر خواہی آپ کا اس منصب پر متعین کیا جانا تھا [اس لیے کہ آپ نے اپنی نبوت والی آنکھ سے دیکھ لیا تھا کہ اس فریضہ کو ان کے علاوہ کوئی دیگر بطریق احسن انجام دینے والا نہیں ]۔اسی لیے جب آپ کو اس منصب پر تعینات کیا گیا
Flag Counter