Maktaba Wahhabi

365 - 566
تَوَلَّعَ بِالْعِشْقِ حَتّٰی عَشِقْ فَلَمَّا اسْتَقَلَّ بِہٖ لَمْ یُطِقْ رَأْی لُجَّۃً ظَنَّہَا مَوْجَۃً فَلَمَّا تَمَکَّنَ مِنْہَا غَرِقْ تَمَنَّی الْاِقَالَۃَ مِنْ ذَنْبِہٖ فَلَمْ یَسْتَطِعْہَا وَلَمْ یَسْتَطِقْ ’’اس نے [جھوٹ سے] عشق کا گرویدہ ہونا چاہا ، یہاں تک کہ اسے حقیقت میں عشق ہوگیا، اورجب یہ عشق کا بوجھ اس پر گراں ہوگیاتو اس کے اٹھانے کی طاقت نہ رکھ سکا۔ اس نے سمندر کا گہرا پانی دیکھا ، اور اسے صرف ایک موج خیال کیا۔ جب وہ پانی میں اچھی طرح داخل ہوا تو غرق ہوگیا۔ اب وہ اپنے گناہ سے چھٹکارہ پانے کی تمناکرنے لگا۔ اسے نہ ہی تو معشوق حاصل ہوئی اور نہ ہی عشق کا بوجھ برداشت کرسکا۔‘‘[1] عشق شراب کے نشہ کی طرح ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نشہ والی چیزکوپہلے اپنے اختیار سے لیا جاتا ہے۔ مگر پھر جب اس کی عقل چلی جاتی ہے اور نشہ چڑھ جاتا ہے تو پھر اسے مجبوراً لینا پڑتا ہے۔ جب اس کا سبب پہلی بار اپنے اختیار سے تھا تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی برائی کے سلسلہ میں کوئی بھی معذور نہیں ہوگا۔ جب مسلسل دیکھتے رہنے اور اپنے محبوب کے بارے میں سوچتے رہنا ، پھر اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا یہ سب اپنے اختیار میں تھا ، تو عشق بھی اختیاری ہوا۔ اسی لیے انسان کو اس کے عشق پر ملامت کیا جاتا ہے۔
Flag Counter