Maktaba Wahhabi

45 - 566
ایک موٹی تازہ بھیڑ کا حکم دیتا ، اس کے بال اتارے جاتے ، پھر میں آٹا گوندھنے کا حکم دیتا جس کی نرم اورگرم روٹیاں بنائی جاتیں، اور ان کے ساتھ بہترین قسم کا گوشت و شوربہ ہوتا ، پھر میں حکم دیتا اڑھائی کلو کشمش کو گھی میں ملاکر ہمارے سامنے ایسے رکھا جاتا جیسے ہرن کا خون؛ [مگرمیں ایسا نہیں کرتا ] حفص نے کہا: میں جانتا ہوں آپ کو نرم کھانے کا پتہ ہے۔ توسیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ تمہاری ماں تمہیں گم پائے ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگرروزِ قیامت میں اپنی نیکیوں کے کم ہونے کو بُرا نہ سمجھتاتو میں تمہارے ساتھ ان نرم کھانوں میں تمہارا شریک ہوتا۔‘‘[1] ام المؤمنین سیّدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے اپنے والد سے کہا: اے امیر المؤمنین! اگر آپ اپنی اس قمیض سے نرم قمیض پہن لیتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ اور اگر اپنے اس کھانے سے تھوڑا اچھا کھانا کھالیتے تو کیا فرق پڑتا؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر روئے زمین فتح کی ہے ، اور آپ کے رزق میں وسعت دی ہے۔ آپ نے فرمایا: میں تمہارے ساتھ اپنی طرف سے دفاع کروں گا۔ کیا تم جانتی نہیں ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کتنی تنگی میں گزری ہے؟ اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کچھ واقعات یاد دلائے یہاں تک کہ انھیں رلادیا۔ پھر فرمایا: میں نے تم سے کہا ہے: میرے دو دوست تھے جو ایک راہ پر چلتے تھے۔ اگر میں ان دونوں کی راہ چھوڑ کر چلنا چاہوں تو چل سکتا ہوں ، مگر اللہ کی قسم ! میں زندگی میں ضرور بالضرور ان کے ساتھ شرکت کروں گا؛ شاید کہ میں ان جیسی زندگی گزار سکوں۔‘‘[2] یہاں پر دوستوں سے مراد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ملک شام تشریف لے گئے تو ان کے لیے ایسا کھانا تیار کیا گیا جو اس سے
Flag Counter