Maktaba Wahhabi

104 - 548
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ کلمہ طیبہ کی تصدیق واقرار کے ہمراہ عمل کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ (سیدھی) راہ پر چلنا عین عمل ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایمان کی تکمیل دو طرح پر ہوتی ہے۔ ایک کلمہ طیبہ کے منطوق کے مطابق اعتقاد لانا، دوسرے اس کے معنی پر عمل کرنا۔ اسی لیے حدیثِ اول میں دخولِ جنت کے واسطے رضا بہ اسلام کو بھی ذکر کیا ہے، کیونکہ اسلام عمل کرنے کا نام ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اقرارِ لسان، تصدیقِ جنان اور عمل بالارکان سے عبارت ہے، جب تک یہ تینوں امر جمع نہیں ہوتے ہیں، تب تک ایمان کامل نصیب نہیں ہوتا۔ 3۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں مرفوعاً مروی ہے: (( بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ شَہَادَۃِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَإِقَامِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَائِ الزَّکَاۃِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ )) [اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے اور یہ کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکات ادا کرنا اور بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا] اس کو ابوداؤد کے علاوہ پانچ ائمہ نے روایت کیا ہے۔ [1] یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام عمل سے عبارت ہے۔ 4۔حدیثِ جبریل علیہ السلام میں بھی اسلام کی یہی تعریف آئی ہے، جو اس حدیث میں مذکور ہے۔ پھر ایمان کی تعریف یوں فرمائی ہے: (( أَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہ وَمَلَائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ )) [ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن پر اور ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے] یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اعتقاد کا نام ہے۔ پھر احسان کا بیان کیا ہے: (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ ))
Flag Counter