Maktaba Wahhabi

105 - 548
[احسان یہ ہے کہ تو اس طرح اللہ کی عبادت کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے، لیکن اگر تو اسے دیکھنے کا تصور پیدا نہیں کر سکتا تو پھر یہ خیال کر کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے] اس حدیث کو مسلم رحمہ اللہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ [1] یہ اس بات کی دلیل ہے کہ احسان اخلاص کا نام ہے۔ کلمہ طیبہ کے جزو اول کا بیان رسالہ ’’دعایۃ الإیمان إلی توحید الرحمٰن‘‘ اور رسالہ ’’الانفکاک عن مراسم الإشراک‘‘ میں اس سے قبل ہو چکا ہے۔ اس جگہ کلمہ طیبہ کے جزو دوم کا معنی بیان کرنا منظور ہے، کیونکہ مجرد اقرارِ توحید اور اعترافِ تجرید و تفریدِ باری تعالیٰ سے کوئی انسان مومن مسلمان نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ نبی آخر الزماںصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کا اقرار نہ کرے، جس طرح کہ مجرد اعترافِ رسالت ونبوت سے بھی کوئی شخص مسلمان مومن نہیں ہوتا ہے، جب تک کہ توحیدِ الٰہی کا اقرار نہ کرے اور اللہ عزوجل کے سوا کسی کی الوہیت وربوبیت کا قائل نہ ہو۔ اسی طرح جو آدمی توحید ورسالت کا قائل ہے، مگر اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کرتا، بلکہ متبعِ بدعات اور خواہشِ نفسانی کا پیروکار ہے، وہ بھی مومن ومسلم ومحسن نہیں ہے، اس کے لیے جہنم سے نجات کی امید اور جنت میں دخول کی توقع نہیں ہو سکتی، جب تک کہ وہ توحید میں اعتقاد وعمل کے اعتبار سے مخلص اور اتباع میں قول وفعل کے لحاظ سے صادق اور ترکِ ہوا میں قاصر الامل نہ ہو۔ اس بنیاد پر اس رسالے میں اتباعِ سنت اور اجتنابِ بدعت کا بیان کیا جاتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کو کتاب ’’دین خالص‘‘ میں بیان کیا گیا ہے، اس لیے کہ وہ کتاب اس باب میں ایک جامع تالیف ہے۔ اس رسالے کو ’’تذکیر الإخوان حصۂ دوم تقویۃ الإیمان‘‘ سے ملخص کر کے اس کا نام ’’دعوۃ الداع إلی إیثار الاتباع علی الابتداع‘‘ رکھا گیا ہے۔ جس مسلمان کا یہ ارادہ ہو کہ کلمہ طیبہ کے معنی کے ساتھ متحقق ہو کر دخولِ جنت کا مستحق بنے اور نار سے نجات پائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کلمہ مبارکہ کے معنی بہ خوبی سمجھ لے اور لا الہ الا اللّٰہ ومحمد رسول اللّٰہ کے منطوق کے مطابق اپنے عقیدے وعمل کو درست کرے۔ یہ بات رسالہ ’’دعایۃ الإیمان‘‘ اور اس رسالے کے مطالعے سے ان شاء اللہ بہ خوبی اس کو حاصل ہو جائے گی۔ اللہ پاک کا کام بیان فرمانا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter