Maktaba Wahhabi

157 - 548
ہوں اور اس نے مجھ کو سچ مُچ بھیجا ہے، مرنے پر ایمان لائے، مرنے کے بعد اُٹھنے پر اور قدر (تقدیر) پر ایمان لائے۔ اس کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔[1] معلوم ہوا کہ تقدیر کا منکر کافر ہوتا ہے، مومن نہیں، گو اپنے منہ سے ایمان کا دعویٰ کرے۔ 2۔ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں مرفوعاً مروی ہے: ’’میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ ان کا اسلام میں کچھ حصہ نہیں ہے۔ ایک مرجیہ، دوسرے قدریہ۔‘‘ اس کو بھی ترمذی نے روایت کیا ہے۔[2] اس جگہ مرجیہ سے مراد جبریہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کام ہم سے ہوتے ہیں، ان کی آخرت میں پرسش نہ ہو گی اور اگر ہوئی تب بھی بخشے جائیں گے۔ 3۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں خبر دی گئی ہے کہ اس امت میں خسف ومسخ ان میں ہو گا جو تقدیر کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔[3] خسف کہتے ہیں زمین میں دھنسنے کو اور مسخ صورت بدل جانے کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قدریہ اس کا نام ہے جو تقدیر کا انکار کرے۔ 4۔حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں فرمایا: ’’قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت نہ کرو اور اگر مرجائیں تو ان کے جنازے پر حاضر نہ ہوں۔‘‘ اس کو احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔[4] یہ حدیث قدر کے منکرین و مکذبین کے کفر پر دلیلِ صریح اور نصِ قطعی ہے۔ اس لیے کہ مجوس کافر تھے، جب ان کو مجوس ٹھہرایا تو وہ بھی ان کی طرح کافر ہوئے، بلکہ یہ تو مجوس سے بھی بدتر ہیں، اس لیے کہ مجوس دو خدا کے قائل ہیں اور یہ بے گنتی خدا ثابت کرتے ہیں، کیونکہ ہر بندے کو اس کے عمل کا خالق بتاتے ہیں اور بندے بے شمار ہیں۔ 5۔عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مرفوعاً مروی ہے کہ تم اہلِ قدر کے پاس مت بیٹھو اور ان سے سلام و کلام
Flag Counter