Maktaba Wahhabi

174 - 548
سے آئے ہیں جو کتبِ سنت مطہرہ میں معروف ہیں۔ وہ سب اس بات پر دلیل ہیں کہ مسلمان پر حقوقِ اصحاب وعترت کا حفظ بابت تعظیم ومحبت ودعا ومراقبہ فرض ہے۔ اب جو کوئی ان کی شان وعظمت میں کمی اور محبت میں فرق اور دعا میں تفاوت کرے گا اور اس سے کسی طرح کی لفظی و معنوی بے ادبی صادر ہو گی تو اس کے اسلام میں فرق اور ایمان میں نقص ہے۔ وہ اپنے آپ کو ناحق مسلمان کہتا اور مومن سمجھتا ہے، بلکہ صحابہ و عترت کو تو جانے دو کہ ان کی فضیلت تو منطوقِ قرآن وحدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عرب کے ساتھ محبت رکھنے کا مطلقاً حکم فرمایا ہے، گو وہ صحابی یا سادات نہ ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما مرفوعاً کہتے ہیں: (( أَحِبُّو الْعَرَبَ لِثَلَاثٍ: لِأَنِّيْ عَرَبِيٌّ، وَالْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ، وَکَلَامُ أَھْلِ الْجَنَّۃِ عَرَبِيٌّ )) [1] [عرب سے تین باتوں کی وجہ سے محبت کرو: اس لیے کہ میں عربی ہوں اور قرآن عربی ہے اور اہلِ جنت کی گفتگو عربی ہے] اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے۔ یعنی دستور ہے کہ آدمی جس سے محبت رکھتا ہے تو اس کے ملک، بستی اور شہر کو بھی چاہتا اور دوست رکھتا ہے، بلکہ وہاں کا نام لینے اور ذکر کرنے سے خوش ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانو! تم عرب کے ملک اور وہاں کے رہنے والوں کو دوست رکھو کہ میں جو تمھارا پیغمبر ہوں عربی ہوں اور اللہ نے جو کتاب تمھاری ہدایت کے لیے اتاری ہے، وہ بھی عربی زبان میں ہے۔ اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں عرب کے رسوم ودستور خوب بیان ہوئے ہیں۔ اگر آدمی کو عرب سے محبت ہو تو عربی زبان سیکھے اور لباس، خوراک و سواری میں عرب کا رویہ اختیار کرے کہ اس سے قرآن کا معنی اور مطلب خوب سمجھے اور بوجھے گا، پھر بہشت کے لوگ بھی عربی بولیں گے۔ ہر مسلمان کو عربی بول چال سے کام پڑے گا۔ عرب سے مراد ملکِ عرب کے قبائل و اقوام ہیں نہ کہ وہ عجم جو اپنے ملک سے نکل کر وہاں جا بسے ہیں اور وہ اصلاً عرب ہیں نہ فرعاً، اسی طرح جو لوگ احیاے عرب کے ملکِ عرب سے نکل کر عجم
Flag Counter