Maktaba Wahhabi

420 - 548
بتا دیا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں ہوتے تو اتنا رنج و غم کیوں کرتے؟ پہلے ہی ان کی پاک دامنی جان لیتے۔ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں جب چاہتا ہوں، غیب کی بات معلوم کرلیتا ہوں اور آیندہ باتوں کو جان لینا میرے قابو میں ہے تو وہ بہت بڑا جھوٹا ہے، جو خدائی کا دعوی رکھتا ہے۔ ایسا اعتقاد کسی نبی، ولی، جن، فرشتے، برہمن آشٹی، بھوت پری، پیر، امام، شہید،نجومی، جوتشی اور فال دیکھنے والے کے حق میں رکھنا شرک ہے۔ یہی حال استخارۂ تسبیح اور کشف والہام نیز قرآن شریف سے فال نکالنے کا ہے، جو شرک کی آلایش سے خالی نہیں ہے۔ فقہا نے قرآن پاک سے فال نکالنے کو مکروہ لکھا ہے، کیونکہ قرآن عمل کرنے کے لیے آیا ہے، اس لیے نہیں نازل ہوا کہ اس سے فال حاصل کریں، اس کو چومیں چاٹیں، کمخواب اور اطلس کا غلاف پہنا کر طلائی و سنہری بناکر طاق یا الماری میں رکھ چھوڑیں۔ مذکورہ بالا آیت سے زیادہ صریح یہ آیت ہے: ﴿قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ﴾ [النمل: ۶۵] [اے نبی! آپ کہہ دیں کہ آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں وہ غیب نہیں جانتے سوا اللہ کے اور انھیں یہ بھی خبر نہیں ہے کہ کب جی اٹھیں گے] اس آیت میں ساری مخلوقات وکائنات سے علم غیب کی نفی کی گئی اور بتایا گیا ہے کہ غیب نہ جاننے میں ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چوٹی مخلوق برابر ہے۔ معلوم ہوا کہ عالم علوی وسفلی دونوں علم غیب سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ جب اللہ پاک نے یہ صراحت فرما دی تو اب وہ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ مجھے غیب کی بات معلوم ہو جاتی ہے؟ سارے جہان میں چاہے کوئی صالح ہو یا طالح، رسول ہو یا فرشتہ یا اور کوئی؛ کسی کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ اپنے بارے میں غیب دانی کا تصور کرے یا کوئی دوسرا اس کے بارے میں اس کا اعتقاد رکھے۔ اس سے واضح ہو گیا کہ فتح وشکست، تندرستی وبیماری، قحط و بارانی، غنا و فقر وغیرہ امور کا حال کسی کو معلوم نہیں ہے۔ کشف واستخارہ اور تقویم کے مدعی اور علم رمل وجفر وفال والے جو غیب دانی کادعوی کرتے ہیں، یہ سب جھوٹے، دغا باز اور مکار ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اللہ کی طرف سے کبھی کسی کو کوئی بات معلوم ہو جائے جو اس کے اختیار میں نہیں ہے، ہم اس کو یقین کے ساتھ سچا یا جھوٹا نہیں کہہ سکتے۔ قرآن پاک میں خاص پانچ باتوں کے بارے میں اللہ
Flag Counter